بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لعنت کا مفہوم اور حکم


سوال

لعنت  کے  بارے  میں  وضاحت  فرماديں!

جواب

 لعن سے مراد ہے کسی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کی بددعا کرنا، احادیث مبارک میں لعنت طعن کرنے سے ممانعت وارد ہوئی ہے، حضرت سمرہ بن جندب رضی عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں  کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’ آپس میں ایک دوسرے پر اللہ کی لعنت، غضب اور دوزخ کی پھٹکار نہ بھیجو۔‘‘

اسی طرح حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’طعن کرنے والا،  کسی پر لعنت بھیجنے والا، فحش گوئی کرنے والا اور بدتمیزی کرنے والا مومن نہیں ہے۔ (یعنی مسلمان کی یہ صفت نہیں ہے)۔‘‘

 چوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کو عام کردیا ہے دنیا میں تو کافر مسلمان ، دوست اور دشمن سب  کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت عام  ہے، پس مسلمان  کے لیے جائز نہیں کہ لعنت سے بددعا دینے کی عادت بنالے اور  متعینہ افراد  کو لعنت سے بدعا دینے لگے اور  یہ ممنوعیت خاص اور معین اشخاص کے اعتبار سے ہے،  پس عام اوصافِ  مذمومہ سے لعنت بھیجنا جائزہے۔ مثلاً یہ کہنا کہ کافروں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ یہود پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ یا جس کافر  کے بارے میں یقین ہو کہ  کفر  پر اس کو موت آئی ہے، اس پر  نام لے کر متعینہ طور پر بھی لعنت بھیجنا جائز ہے،  جیسے فرعون اور ابوجہل وغیرہ۔

سنن الترمذي ت شاكر (4 / 350):

"عن الحسن، عن سمرة بن جندب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لاتلاعنوا بلعنة الله، و لا بغضبه، و لا بالنار» وفي الباب عن ابن عباس، وأبي هريرة، وابن عمر، وعمران بن حصين: هذا حديث حسن صحيح.

... عن علقمة، عن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليس المؤمن بالطعان و لا اللعان و لا الفاحش و لا البذيء». هذا حديث حسن غريب، وقد روي عن عبد الله من غير هذا الوجه."

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7 / 3045):

"(و عن سمرة بن جندب -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لاتلاعنوا) : بحذف إحدى التاءين (بلعنة الله)، أي: لايلعن بعضكم بعضًا، فلايقل أحد لمسلم معين: عليك لعنة الله مثلًا (و لا بغضب الله)، بأن يقول: غضب الله عليك (و لا بجهنم) : بأن يقول: لك جهنم أو مأواك. (و في رواية: و لا بالنار). بأن يقول: أدخلك الله النار أو النار مثواك، و قال الطيبي أي: لاتدعوا الناس بما يبعدهم الله من رحمته إما صريحًا كما تقولون: لعنة الله عليه أو كنايةً كما تقولون: عليه غضب الله أو أدخله الله النار، فقوله: لاتلاعنوا من باب المجاز؛ لأنه في بعض أفراده حقيقة، و في بعضه مجاز، و هذا مختص بمعين؛ لأنه يجوز اللعن بالوصف الأعم كقوله: {فلعنة الله على الكافرين} [البقرة: 89] ، وبالأخص قوله: " «لعنة الله على اليهود» " أو على كافر معين مات على الكفر كفرعون وأبي جهل (رواه الترمذي وأبو داود) . وكذا الحاكم ولفظهم: ولا بالنار على ما في الجامع."

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144201201401

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں