بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

LAM ایپلیکیشن میں کام کرنے کا حکم


سوال

Lam ایپلیکیشن میں کام کرنے کا حکم https://cocaqq.com/#/ یہ اس کا لنک ہے۔

جواب

 صورت مسئولہ میں  LAM ایپلیکیشن کے حوالے سے  ہمیں جو معلومات حاصل ہوئی ہیں  اس  معلومات کا خلاصہ  یہ ہے :

1:LAM بنیادی طور پر ایک ایڈورٹائزنگ میڈیا گروپ ہے،جس کا مقصد مختلف کمپنیوں اور اشخاص کےسوشل میڈیا پلیٹ فارمز   کی تشہیر اور ریٹنگ وغیرہ کو پورا کرنے میں مدد فراہم کرنا ہے ،اس کے عوض  LAM ان کمپنیوں اور اشخاص سے  اپنا کمیشن لیتا ہے۔

2:LAMمیں  کام کرکے پیسے کمانے کے دو طریقے ہیں :

پہلاطریقہ یہ ہے کہ اس ایپ کے مختلف پیکجوں میں سے  کوئی ایک پیکچ  / لیول خریدیں ، اس کے بعد روزانہ کی بنیاد پر مخصوص ٹاسک دیاجاتاہے ،ٹاسک  میں فیس بک ،یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا  پلیٹ فارم کی ویڈیوز کو دیکھنا اور ان کو لائک کرنا ہوتا ہے،ٹاسک پورا ہونے پر کمیشن دیا جاتا ہے ۔

دوسرا طریقہ  یہ ہے کہ اس ایپ میں اپنا اکاؤنٹ بنانے کے بعد دوسرے لوگوں کو دعوت دیں ،پہلے شخص  کے توسط سے جتنے لوگ اکاؤنٹ بنائیں گے اس کا کمیشن پہلے شخص  کو ملے گا اور پھر  یہ سلسلہ  چین در چین چار لوگوں تک چلتا رہےگا یعنی ہر نئے اکاؤنٹ بنانے والے کے اوپر تین لوگوں تک  چوتھے اکاؤنٹ بنانے والے کی وجہ سے  کمیشن ملے گا ۔

مذکورہ تفصیل کی روشنی میں    LAM ویب سائٹ  کے ذریعہ کمائی کرنا  مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر ناجائز ہے:

1:مذکورہ ایپ کی جانب سے روزانہ  ٹاسک ملتا ہے اور اس کو پورا  کرنے پر بطور معاوضہ پیسہ دیا جاتا ہے یہ بظاہر اجارہ کا معاملہ ہے ،اور اجیر (محنت کنندہ ) کا شرعی قاعدہ یہ ہے کہ  اجیر سے کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا بلکہ اجیر کو اس کے عمل پر محنتانہ دیا جاتا ہے جب کہ مذکورہ ایپ میں خرابی یہ ہے کہ  اجیر کو پہلے رقم پیش کرنی ہوتی ہے اور اس پر اس کو ٹاسک ملتا ہے جتنی رقم زیادہ ہوگی اسی حساب سے روزانہ کی کمائی بھی بڑھے گی ۔ تو شرعا یہ صورت اور طریقہ کار جائز نہیں ہے۔

2: اس میں ایسے لوگ  اشتہارات کو دیکھتے ہیں  جن کا چیزیں لینے کا کوئی ارادہ ہی نہیں، بائع کو ایسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ دکھانا جو کہ کسی طرح بھی خریدار نہیں، یہ بیچنے والے کے ساتھ  ایک قسم کا دھوکا ہے۔

3:  بعض ویڈیوز میں جاندار کی تصاویر بھی ہوتی ہیں ،جان دار کی تصویر  کسی بھی طرح کی ہو اس کا دیکھنا جائز نہیں،لہذا اس پر جو اجرت  لی جائے گی وہ بھی جائز نہیں  ہوگی۔

4: ان اشتہارات میں بسا اوقات  خواتین کی تصاویر بھی ہوتی ہیں جن کا دیکھنا بدنظری کی وجہ سے بھی مستقل گناہ ہے۔

5:  نیز اس معاملے میں جس طریقے پر اس ویب سائٹ کی پبلسٹی کی جاتی ہے جس میں پہلے اکاؤنٹ بنانے والے کوہر نئے اکاؤنٹ بنانے والے پر کمیشن ملتا رہتا ہے ،جب کہ  اس نے  اس نئےاکاؤنٹ بنوانے میں کوئی عمل نہیں کیا ، اس بلا عمل کمیشن لینے کا معاہدہ کرنا اور  اس پر اجرت لینا بھی جائز نہیں۔

شریعت میں بلا  محنت کی کمائی   کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور  اپنی محنت   کی کمائی   حاصل کرنے کی ترغیب ہے  اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا ہے ، لہٰذا  حلال کمائی کے لیے کسی بھی  ایسے طریقے کو اختیار کرنا چاہیے  کہ جس میں اپنی محنت شامل ہو ایسی کمائی زیادہ بابرکت ہوتی ہے،چناں چہ مذکورہ ایپلیکیشن کے ذریعے پیسے کمانا جائز  نہیں ہے ۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن رافع بن خديج قال: قيل: يا رسول الله أي الكسب أطيب؟ قال: «‌عمل ‌الرجل ‌بيده وكل بيع مبرور» . "

(‌‌كتاب البيوع، باب الكسب وطلب الحلال، الفصل الثالث، ج:2، ص:847، ط:المكتب الإسلامي)

شعب الایمان  میں ہے:

"عن سعيد بن عمير الأنصاري قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم أيّ الكسب أطيب؟ قال: «‌عمل ‌الرجل ‌بيده، وكلّ بيع مبرور»."

(الثالث عشر من شعب الإيمان، التوكل بالله عزوجل والتسليم لأمره تعالي فى كل شيئ، ج:2، ص:84، ط: دار الكتب العلمية)

ترجمہ:’’آپ ﷺ سے پوچھا گیا  کہ سب سے پاکیزہ کمائی کو ن سی ہے؟تو آپ ﷺنے فرمایا کہ  آدمی کا  خود  اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع۔‘‘

فتاوی شامی میں ہے :

"هي لغة: اسم للأجرة وهو ما يستحق على عمل الخير ولذا يدعى به، يقال أعظم الله أجرك. وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية."

(كتاب الإجارة، ج:6، ص:4، ط: سعيد) 

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:

"ولایجوز الاستئجار علی المعاصي کاستئجار الإنسان للعب و اللهو المحرم ... لأنه استئجار علی المعصیة والمعصیة لاتستحق بالعقد." 

(شروط صحة الإجارة، ج:5، ص:3817، ط: دارالفكر)

الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ  میں ہے :

"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لايستحق به أجرة . ولايجوز استئجار كاتب ليكتب له غناءً ونوحاً؛ لأنه انتفاع بمحرم ... و لايجوز الاستئجار على حمل الخمر لمن يشربها، ولا على حمل الخنزير."

(کتا ب الإجارة، الفصل السابع، الإجارة على المعاصى والطاعات، ج:1، ص:290، ط: دارالسلاسل)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144503102183

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں