میں شادی شدہ ہوں، تین بچے بھی ہیں،میں ایک ٹیچر ہوں ،اور اپنا ایک اسکول بھی چلاتا ہوں، میں اسکول میں بحیثیت ڈائریکٹر و پرنسپل خود بیٹھتا ہوں، اور جملہ امور کی نگرانی خود کرتا ہوں، اسکول کے چیئرمین میرے بڑے بھائی ہیں، جو ایک عالمِ دین بھی ہیں اور اس وقت ایک معروف کالج میں وائس پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں،گزشتہ سال گرمیوں کی چھٹیوں سے ایک دن قبل مئی 2024 میں ہمارے اسکول کی ایک ٹیچر نے میرے بھائی کو فون کیا کہ انہیں ان سے ایک اہم بات کرنی ہے، بھائی اس کے اصرار پر کالج سے تھوڑی دیر کے لیے اسکول آگئے،اس ٹیچر نے اپنے ساتھ کام کرنے والی ایک دوست ٹیچر کے متعلق بات کی، جو کہ ہمارے ہی اسکول میں پڑھاتی تھی، اس نے بھائی سے کہا کہ اس کی دوست مجھے (یعنی پرنسپل کو) پسند کرتی ہے، اور مجھ سے شادی کی خواہش مند ہے،یہ بات میرے بھائی کے لیے حیران کن تھی، کیوں کہ میں شادی شدہ اور بچوں والا ہوں ،میری ازدواجی زندگی بھی الحمدللہ خوشگوار تھی،بھائی نے مجھ سے مشورہ کیے بغیر اسی وقت اسے واضح طور پر کہہ دیا کہ یہ ممکن نہیں، کیوں کہ میں شادی شدہ ہوں، بچے ہیں، اور ذات کا بھی فرق ہے، (نوٹ: ہم رحمانی ہیں، جب کہ لڑکی راجپوت ہے)ٹیچر نے اصرار کیا کہ وہ اپنے گھر والوں کو بھی منالے گی،وہ لڑکی میرے بچوں کی بھی استاد تھی، اور میرے بچوں کی موجودگی میں ان سب چیزوں کو جاننے کے باوجود اس کا اصرار تھا،اس کی دوست کا کہنا تھا کہ وہ کچھ ماہ سے پریشان اور بیمار رہتی تھی، جب مجھے اس کی اس حالت کا علم ہوا تو میں نے حسبِ معمول انسانی ہمدردی کے تحت اس کا خیال رکھا، اس کا حال احوال پوچھا، کیوں کہ اس کے گھر میں کوئی اس کا خیال رکھنے والا نہیں تھا، والدہ وفات پا چکی تھیں، بہنیں شادی شدہ تھیں، بھائی مصروف، والد دفتر میں کام کرتے تھے، چناں چہ میرے حسنِ سلوک کی وجہ سے اس کے دل میں جذبات پیدا ہو گئے،چھٹیاں ہو گئیں، بھائی نے مجھ سے ذکر کیا، میں حیران ہوا، میں ہمیشہ تمام اسٹاف کا خیال رکھتا ہوں،غمی خوشی میں شریک ہوتا ہوں، یہ سن کر ایک فطری انسانی جذبہ میرے دل میں بھی پیدا ہونے لگا، کیوں کہ وہ نہایت سنجیدہ، باحیا اور خوبصورت لڑکی تھی، میں اسے دو سال سے جانتا تھا،اساتذہ کی چھٹیاں 20 جولائی تک تھیں، چھٹیوں میں اس کا نمبر بند رہا،20 جولائی کو وہ اسکول نہیں آئی، دوست سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ آنے والی تھی، مگر پھر پیغام آیا ،کہ وہ اسکول نہیں آئے گی، نہ آج نہ آئندہ،وجہ پوچھی گئی تو پتہ چلا کہ اس نے اپنے والد کو سب کچھ بتا دیا تھا ،اور شادی کی خواہش ظاہر کی تھی، والد نے سختی سے منع کیا، اور اسکول آنے سے روکا، بلکہ اس کا گلا دبا کر جان سے مارنے کی دھمکی دی، یہاں تک کہا کہ جس طرح ہم نے اپنی بہن کو مارا، تمہیں بھی مار دیں گے،میں اس صورتِ حال سے شدید پریشان ہوا، پھر اگست کے آغاز میں اس کا میسج آیا کہ وہ پولیس کی مدد لینا چاہتی ہے، میں نے اسے روکا کہ معاملہ مزید خراب ہو جائے گا، اس نے پولیس سے رابطہ نہ کیا،لیکن ایک وکیل خاتون کے ذریعے قانونی مدد لی، 13 اگست کو وہ گھر سے لاہور چلی گئی،15 اگست کو عدالت میں پیش ہوکر بیان دیا کہ وہ اپنی مرضی سے آئی ہے اور جان کو خطرہ ہے، تحفظ دیا جائے، عدالت نے اسے دارالامان بھیج دیا،بعد میں وہ اپنی دوست کے گھر منتقل ہوگئی،اب وہ پریشان تھی کہ مستقل کہاں رہے؟ میں نے سوچا کہ اگر میں نکاح نہ کروں اور وہ گناہ کی راہ پر چلی جائے، تو میں بھی گناہ گار ہوں گا، چناں چہ 17 اگست کو لاہور جا کر ہم نے کورٹ میرج کر لی، میں فوراً واپس آ گیا، تاکہ شک نہ ہو،لیکن چند دن بعد میرا بھانجا جو میرے ساتھ گیا تھا، اس نے بھائی کو سب بتا دیا،بھائیوں نے بغیر مجھ سے بات کیے علاقے کے معززین کو سب کچھ بتا دیا، لڑکی کے گھر والے شدید غصے میں آ گئے،تین دن میں طلاق اور لڑکی کی واپسی کا مطالبہ کیا، ورنہ جان سے مارنے کی دھمکی دی،دھمکی کے باعث، اور تمام گھر والوں کی دباؤ پر، میں نے طلاق کے کاغذات پر دستخط کر دیے، لیکن نہ تو طلاق کے الفاظ زبان سے کہے، نہ دل سے نیت کی،وہ لڑکی کو اپنے ساتھ لے گئے،اس کے بعد میں شدید ذہنی اذیت کا شکار ہو گیا، مختلف علما سے رجوع کیا، مگر کسی نے مکمل تفصیل نہ پوچھی، اکثر نے کہا کہ نکاح ہی نہیں ہوا، کیونکہ کفو (برادری) کا فرق تھا،کچھ نے کہا کہ طلاق ہو گئی ہے، ایک عالم نے کہا کہ اگر طلاق نہیں ہوئی تو قیامت کے دن میں (یعنی عالم صاحب) مجرم ہوں گا، تم نہیں،یہ سب سن کر میں شدید اضطراب اور ذہنی الجھن کا شکار ہوں،میں دین دار گھرانے سے ہوں، میرے والد عالم تھے، بھائی بھی عالم ہے، اور گھر میں کئی حفاظ بھی ہیں، دین کی بنیادی سمجھ بوجھ مجھے بھی ہے، اب میرا ذہن ان چند سوالات میں الجھا ہوا ہے، جن میں آپ سے راہ نمائی درکار ہے:
1۔ کفو کے بارے میں شرعی احکامات کیا ہیں؟ کیا صرف مروجہ ذات برادری ہی کفو میں شمار ہوتی ہے؟
2۔ ایک عاقلہ بالغہ لڑکی جس کی عمر 25 سال ہو، بلوغت کو بھی تقریباً 12، 13 سال ہو چکے ہوں، گھر والوں کی طرف سے مناسب رشتہ نہ کرائے جانے پر کسی بے راہ روی کا شکار ہونے کی بجائے ایک جائز رشتے نکاح کے رشتے کی درخواست کرے تو کیا میرے لیے اس کو ٹھکرانا ٹھیک تھا؟ یا میں نے اس کو سہارا دینے اور معاشرے میں بھٹکنے اور بے راہ روی کا شکار ہونے کے لیے چھوڑنے کی بجائے نکاح کا جو قدم اٹھایا وہ درست تھا؟
3۔ طلاق ایک ناپسندیدہ عمل ہے، کسی عالم کا خود ساختہ ہو کر اکٹھے تین طلاق کرانا، اس پر ڈٹ جانا اور یہ کہہ دینا کہ اگر یہ طلاق نہیں ہوئی اور گھر والے اس لڑکی کا نکاح کہیں اور کر دیتے ہیں تو اس کا وبال میرے سر پر ہو گا ،اور قیامت والے دن میں جواب دہ ہوں گا، کیا یہ اس عالم کا درست طرز عمل ہے؟
4۔ بھائی (جو عالم ہیں) ان کے کہنے پر اور متعدد علماء و مفتیان کی تائید کے باوجود میرا ذہن ابھی تک اس بات کو تسلیم نہیں کر رہا کہ: ذات برادری کے فرق کی بنا پر نکاح نہیں ہو سکتا۔ جبری طلاق جس میں واضح طور پر دھمکی دی گئی تھی کہ تین دن کے اندر طلاق نہ دی تو سب کو مار دیا جائے گا۔ (لڑکی پہلے بھی عدالت میں بیان دے چکی تھی کہ میرے گھر والوں نے اپنی بہن کو قتل کیا ہوا ہے، تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس دھمکی پر بھی عمل کر سکتے ہیں) کیا ایسے جبری طلاق واقع ہو سکتی ہے؟
5۔ یہاں ایک اشکال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہی علماء ایک طرف کہتے ہیں کہ نکاح ہی نہیں ہوا، دوسری طرف کہتے ہیں کہ طلاق ہو گئی ہے۔ جب ان کے بقول نکاح منعقد ہوا ہی نہیں تو طلاق کیسی؟ اگر طلاق ہوئی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ نکاح درست تھا؟
6۔ ایک عاقلہ بالغہ لڑکی مسلسل کئی سال تک نکاح نہ ہونے پر خود نکاح کا فیصلہ کر لے اور والدین کے بجائے حکومت (عدالت) کو سرپرست تسلیم کر کے عدالت کے ذریعے نکاح کرے تو شریعت کی نظر میں اس کا یہ عمل کسی حد تک قابل قبول یا کس حد تک ناپسندیدہ ہے؟ (علماء سے ہی سنا ہے کہ بلوغت کے بعد نکاح میں تاخیر کی صورت میں ہر ماہواری پر قتل انبیاء کے برابر والدین کو گناہ ملتا ہے، اس روایت کو بیان کرنے میں اگر کوئی کمی بیشی ہوئی ہے تو اللہ تعالیٰ کمی بیشی معاف فرمائے)۔
7۔ اگر طلاق واقع ہو چکی ہے تو میں اس میں کس حد تک مجرم ہوں؟ (میں اس حوالہ سے شدید ذہنی اذیت کا شکار ہوں)۔
8۔ اگر طلاق واقع نہیں ہوئی اور اگر اس کے گھر والوں نے زبردستی اس کا نکاح کہیں اور کر دیا ہوا ہے تو مجھے اس صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ مزید اس نکاح پر نکاح کا وبال کس کے سر پر ہو گا؟ کیا میں بھی اس میں برابر مجرم ہوں گا؟
9۔ ایک عالم اور مفتی صاحب نے یہ کہا تھا کہ شرعی مسائل میں مروجہ معاشرتی اقدار کو ملحوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے، لہذا میں نے یہ سب غلط کیا ہے، اس طرح کرنا ہی نہیں چاہیے تھا،مزید یہ کہ طلاق بہرحال واقع ہو چکی ہے، حتیٰ کہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ جو تمھارے ذہن میں خیال آ رہا ہے کہ طلاق نہیں واقع ہوئی یہ بھی ایک شیطانی وسوسہ ہے، اپنے ذہن کو پاک رکھو، یہاں سے میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ اس دور میں 30، 30 سال تک بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ عمر تک آج کل لڑکیوں کی شادی نہیں کی جاتی تو کیا مذکورہ عالم اور مفتی صاحب کے مطابق اس کو بھی معاشرتی قدر خیال کرتے ہوئے قبول کر لیا جائے اور تاخیر سے شادی کرنے کو گناہ تصور نہیں کیا جائے گا؟ مزید یہ کہ کون کون سی مزید معاشرتی خرابیوں کو معاشرتی اقدار قرار دے کر ہم درجۂ قبولیت دے سکتے ہیں؟ ہمارا گھرانہ ایک مذہبی گھرانہ شمار ہوتا ہے۔ میرے والد صاحب بھی عالم تھے، (ابھی ان کی وفات ہو چکی ہے اور جنت البقیع میں مدفون ہیں) بڑے بھائی بھی عالم ِدین ہیں، ہمارے گھرانے میں کئی حفاظ موجود ہیں،الحمد للہ۔ میں عالم تو نہیں، لیکن بہت حد تک دین کے مسائل کا بنیادی علم ہے، الحمد للہ۔ میں ذاتی طور پر کوئی بہت زیادہ باعمل نہیں لیکن میری کوشش بہرحال ہوتی ہے کہ دین سے متعلقہ جو باتیں بھی مجھے معلوم ہوں، حتیٰ المقدور ان پر عمل کروں، اس نکاح کو مروجہ معاشرتی اقدار کی رو سے تو کوئی بھی اس کو مستحسن قرار نہیں دے رہا، لیکن میں نے بہت سوچ کر یہ قدم اٹھایا تھا، میرے نزدیک ایک بے گھر لڑکی جس نے کوئی گناہ نہیں، بلکہ نکاح کی پیشکش کی تھی، اس کو ٹھکرانا شرعی طور پر بھی غلط تھا، اگر میں نکاح نہ کرتا وہ کسی برائی کی دلدل میں جا گرتی یا مایوسی کی صورت میں اپنے آپ کو کوئی نقصان پہنچا بیٹھتی تو بھی میں ساری زندگی اس قلق سے جان نہ چھڑا پاتا اور جہاں تک میرا خیال ہے قیامت والے دن بھی میں عنداللہ اس پر مسئول ہوتا کہ نکاح کیوں نہیں کیا تھا؟
(1)واضح رہے نکاح کے باب میں "کفو" کا مطلب یہ ہے کہ لڑکا دین، دیانت، مال ونسب، پیشہ اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم پلہ (یا اس سے بڑھ کر) ہو ، اس سے کم نہ ہو، اور کفاءت میں مرد کی جانب کا اعتبار ہے، یعنی لڑکے کا لڑکی کے ہم پلہ اور برابر ہونا ضروری ہے، لڑکی کا لڑکے کے برابر ہونا ضروری نہیں ہے،واضح رہے کہ برادری سے باہر نکاح کرنا منع نہیں ہے، بشرطیکہ یہ کہ کفو کی دیگر شرائط پائی جاتی ہو، لہذا اگر کوئی بالغ لڑکی ایسی برادری میں نکاح کرے جو عرفاً لڑکی کے برادری سے کمتر سمجھی جاتی ہو تو بچہ کی پیدائش سے پہلے پہلے تک والد کو بذریعہ عدالت تنسیخ نکاح کا حق حاصل ہوتاہے،البتہ اگر لڑکی کفو میں نکاح کیا ہو،تو والد کو اعتراض کا حق حاصل نہیں ہوتا۔
(2) ایک عاقلہ بالغہ لڑکی کو اگر اس کے گھر والوں کی طرف سے مناسب رشتہ نہ کرائے جانے پر کسی بے راہ روی کا شکار ہونے کی بجائے ایک جائز رشتے کی درخواست کرنے کی صور ت میں سائل کےلیےاس نکاح کو قبول کرنا جائزتھا،البتہ سائل نے جو خفیہ طریقہ سے کسی کو بتائے بغیر نکاح کیا ، یہ طریقہ درست نہیں تھا، اور معاشرتی اقدار کی رو سے اس کو مستحسن نہیں کہا جاسکتا ۔
(3)طلاق ایک ناپسندیدہ عمل ہے،اتنہائی مجبوری میں اس کی اجازت دی گئی ہے ،ایک ساتھ تین طلاقیں دینا بہت ہی برا اقدام ہے،اسی طرح میاں بیوی کے درمیان جدائی کرانے کی کوشش کرنے والے کےبارے میں سخت وعیدات احادیث میں وارد ہوئی ہیں ، لہذا کسی عالم کا خود ساتھ ہو کر اکٹھے تین طلاق کرانا، اس پر ڈٹ جانا اور یہ کہہ دینا کہ اگر یہ طلاق نہیں ہوئی ،اور گھر والے اس لڑکی کا نکاح کہیں اور کر دیتے ہیں تو اس کا وبال میرے سر پر ہو گا، اور قیامت والے دن میں جواب دہ ہوں گا،یہ عمل اس عالم کے لیے درست نہیں ہے ،پس مسئولہ صورت میں سائل نے جانتے بو جھتے تین طلاق والے طلاق نامہ پر اگر دستخط کئےہوں ،تو اس صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی ،بیوی شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی ،شوہر کے لیے مطلقہ بیوی سے رجوع کرنا یا دوبارہ نکاح کرنا حرام ہوگا،پس مطلقہ خاتوں اپنی عدت مکمل تین ماہواریاں گزار کرکسی اور شخص کے ساتھ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔
( 4) برادری سے باہر نکاح کرنا منع نہیں ہے، بشرطیکہ کفوء کی دیگر شرائط پائی جائیں، لہذا اگر کوئی بالغ لڑکی اپنی برادری کے علاوہ میں نکاح کرےتو نکاح منعقد ہوجائےگا ، تاہم اگر کمتر برادری میں اگر نکاح کیاہو ،تو والد کو اعتراض کا حق ہوگا۔
5) سائل کا نکاح اس لڑکی سے منعقد ہو چکاہے، اور اس کے بعد اگر سائل کو قتل کی دھمکی دے کر جبری طور پر اس سے طلاق نامہ پر دستخط کرائے گئے تھے ،اور سائل کو یقین تھا کہ اگر دستخط نہیں کئے تو وہ اسے اور ا س کی منکوحہ کو قتل کر دیں گے تو اس صورت میں محض دستخط کرنے کی وجہ سے طلاق واقع نہیں ہوگی،البتہ اگر دستخط کرنے کے ساتھ زبان سے بھی طلاق کےالفاظ کہے ہوں ،تو پھر طلاق واقع ہوجائے گی ۔
(6)بیٹی کےبالغ ہوجانےکے بعدجلد از جلد نکاح کرانے کا حکم ہے،کسی شرعی مجبوری کے بغیر نکاح میں تاخیرکرنے سے رسول اکرم ﷺ نے منع فر مایاہے،ایک روایت میں ہے کہ نکاح میں تاخیر کی وجہ سے اولاد سے سرزدہونے والا گنا ہ اس کے والد کے سر پر ہوتاہے ،لہذا بیٹی کے نکاح میں بلا وجہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے، تاہم سائل نے جو بات تحریر کی ہے ایسی کوئی بات تلاش کے باوجود نہ مل سکی ،مسئولہ صورت میں اگر ایک عاقلہ بالغہ لڑکی مسلسل کئی سال تک نکاح نہ ہونے پر اولیاء کی اجازت کے بغیر خود نکاح کا فیصلہ کر لے،اور والدین کے بجائے حکومت (عدالت) کو سرپرست تسلیم کر کے عدالت کے ذریعے نکاح کرے تو شریعت کی نظر میں یہ نکاح منعقد تو ہوجائے گا ،لیکن یہ عمل ناپسندیدہ ہے،تاہم گناہ کے بجائے نکاح کا راستہ اختیارکرنے کی صورت میں لڑکی کے گھر والوں کو خوشدلی سے رشتہ قبول کرنا چاہیے،نکاح کو وجہ سے مذکورہ دونوں افراد کو قتل کی دھمکی دینایا قتل کرناحرام ہوگا۔
(7) صورتِ مذکورہ میں اگر واقعی سائل سے جبری طور پر قتل کی دھمکی دے کر طلاق نامہ پر دستخط کرایاگیا ہے، تو اس سے اس کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوگی ،بشرطیکہ زبان سے طلاق نہ دی ہو،بصورت دیگر طلاق واقع ہوجائےگی، اورسائل گناہ گار نہ ہوگا ۔
(8) اکراہ تام کی صورت میں طلاق نامہ پر دستخط کرنے سے طلاق نہیں ہوگی ،اور مذکورہ لڑکی کا کسی اور کے ساتھ نکاح کرانا جائز نہیں ہوگا ،اور دوسرا نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا ، اس صورت میں بذریعہ عدالت کاروائی کی اجازت ہوگی ،البتہ اگر سائل نے زبان سے بھی طلاق دی ہو یا قتل کی دھمکی پہ عمل کئے جانے کا غالب گھمان نہ ہو نے کے باوجود جاتنے بوجھتے طلاق نامہ پر دستخط کئے ہو ں ،تو اس صورت میں طلاق واقع ہوجائے گی ،اور تکمیل عدت کے بعد کسی اور سےکیا گیا نکاح منعقد ہوجائے گا۔
(9)ہر معاشرتی رواج کو شریعت میں درست نہیں مانا جا سکتا، شادی میں بلا وجہ تاخیر کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ نہیں، جیسے کہ آج کے دور میں یہ عام ہو گیا ہو، اس لیے شادی میں دیر کرنا اگر بغیر کسی شرعی عذر کے ہو، تو یہ درست نہیں، معاشرتی رواج صرف اسی وقت مانا جائے گا جب وہ شریعت کے خلاف نہ ہو۔
سنن الترمذی میں ہے:
"١٧١ ۔ حدثنا قتيبة ، قال: حدثنا عبد الله بن وهب ، عن سعيد بن عبد الله الجهني ، عن محمد بن عمر بن علي بن أبي طالب ، عن أبيه ، عن علي بن أبي طالب أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له:يا علي، ثلاث لا تؤخرها: الصلاة إذا آنت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفؤا".
( أبواب الصلاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب ما جاء في الوقت الأول من الفضل،ج:1،ص: 213،ط: دار الغرب الإسلامي، بيروت)
ترجمہ: "حضرت علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: " اے علی! تین چیزوں میں دیر نہ کرو: نماز میں جب اس کا وقت ہو جائے، جنازہ میں جب آجائے، او عورت (کے نکاح میں ) جب تمہیں اس کا کوئی کفو (ہمسر) مل جائے۔"
مشكاة المصابيح میں ہے:
"وعن أبي سعيد وابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوجه فإن بلغ ولم يزوجه فأصاب إثما فإنما إثمه على أبيه."
( كتاب النكاح، باب الولي في النكاح واستئذان المرأة، الفصل الثالث،ج،2،ص:939، ط: المكتب الإسلامي،بيروت)
"ترجمہ: حضرت ابو سعيد اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروي ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہوگا۔"
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخراً وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخراً أيضاً، حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك، ولكن للأولياء حق الاعتراض ... وفي البزازية: ذكر برهان الأئمة أن الفتوى في جواز النكاح بكراً كانت أو ثيباً على قول الإمام الأعظم، وهذا إذا كان لها ولي، فإن لم يكن صح النكاح اتفاقاً، كذا في النهر الفائق، ولا يكون التفريق بذلك إلا عند القاضي، أما بدون فسخ القاضي فلا ينفسخ النكاح بينهما".
( کتاب النکاح، الباب الخامس في الأکفاء فی النکاح،ج:1،ص:292، ط: دار الفکر، بیروت)
الدر مع الرد میں ہے:
"الإكراه (هو لغة حمل الإنسان على) شيء يكرهه وشرعا (فعل يوجد من المكره فيحدث في المحل معنى يصير به مدفوعا إلى الفعل الذي طلب منه) وهو نوعان تام وهو الملجئ بتلف نفس أو عضو أو ضرب مبرح وإلا فناقص وهو غير الملجئ. (وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص (آخر) كإتلاف مال الغير (أو لحق الشرع) كشرب الخمر والزنا۔۔۔۔ وفيه بعد اسطر(وصح نكاحه وطلاقه وعتقه) لو بالقول لا بالفعل كشراء قريبه ابن كمال."
(كتاب الإكراه، ج:6، ص:128 و 129، ط:سعید)
فقط وللہ أعلم
فتوی نمبر : 144609101086
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن