بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لکڑی کے کھڑاؤ بنانے کاحکم


سوال

لکڑی کے کھڑاؤ جو پہلے زمانے میں پہنے جاتے تھے لیکن اب وہ مندر وغیرہ میں چڑھاوے کے طور پر چڑھاۓ جاتے ہیں ،کیا اس کھڑاؤ کا بنانا یہ جانتے ہوئے کہ یہ مندر کے لیے استعمال ہوں گے کیسا ہے؟

جواب

واضح  رہے کہ  غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں اور مذہبی رسومات   میں استعمال ہونے والی چیزیں اگر عمومی نوعیت کی ہوں، یعنی ان کے تہواروں اور رسومات کے ساتھ خاص نہ ہوں، بلکہ دیگر مقاصد میں بھی ان کا جائز استعمال موجود ہو تو ایسی چیزوں کا کاروبار کرنا شرعا جائز ہے، نیز ایسی اشیاء بھی اگر بیچنے والے کو یقینی طور پر معلوم ہو کہ یہ چیزیں ناجائز کاموں (غیر مسلموں کی مذہبی عقائد و رسومات کی ترویج تشہیر) میں استعمال ہوں گی تو ان لوگوں کو ایسی صورت میں ایسی اشیاء بیچنا گناہ کے کام میں معاونت (تعاون علی الاثم) پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں، اس سے اجتناب لازم ہے، اور اگر ان چیزوں کا استعمال عملی طور پر صرف غیر مسلموں کے مذہبی شعائر، علامات اور تہواروں میں ہوتا ہو، جس سے ان کے باطل مذہب کی ترویج و تشہیر ہوتی ہو تو ایسی اشیاء کا کاروبار کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔

القرآن الکریم: (المائدۃ، الایة: 2)

"وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ."

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے: 

"(ويكره) تحريما (بيع السلاح من أهل الفتنة إن علم) لأنه إعانة على المعصية (وبيع ما يتخذ منه كالحديد) ونحوه يكره لأهل الحرب (لا) لأهل البغي لعدم تفرغهم لعمله سلاحا لقرب زوالهم، بخلاف أهل الحرب زيلعي."

(کتاب الجہاد ، باب البغاۃ،268/4، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے :

"أن جواز البیع یدور مع حل الانتفاع".

(کتاب البیوع ،باب البیع الفاسد،51/5،ط، سعید)

الأشباه والنظائر میں ہے :

"القاعدة الثانية: الأمور بمقاصدها  كما علمت في التروك. وذكر قاضي خان في فتاواه: إن بيع العصير ممن يتخذه خمراً إن قصد به التجارة فلايحرم، وإن قصد به لأجل التخمير حرم، وكذا غرس الكرم على هذا (انتهى) . وعلى هذا عصير العنب بقصد الخلية أو الخمرية".

(ص: 23،دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144505100157

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں