بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لکڑی کا تخت جس پر نماز پڑھتے تھے بوسیدہ ہوجائے تو کیا حکم ہے؟


سوال

ہمارے پاس ایک تخت پوش تھا جس پر ہم گھر میں نماز پڑھتے تھے اب وہ بوسیدہ ہو گیا ھے کیا ہم اس کی لکڑی کو جلا سکتے ہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں تخت  پوش جس پر نماز پڑھاکرتےتھےاگروہ  کسی قابلِ احترام کام میں استعمال ہوسکتاہے اس میں استعمال کرلینا چاہیے،اگرکسی قابل احترام کام میں استعمال نہ ہوسکتاہوتواسے جلانے کے کام میں لانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

" يجوز رمي ‌براية ‌القلم الجديد، ولا ترمى ‌براية ‌القلم المستعمل لاحترامه كحشيش المسجد وكناسته لا يلقى في موضع يخل بالتعظيم."

(ردالمحتار علی الدر المختار،كتاب الطهارة ، سنن الغسل 1/ 178 ط: سعيد)

المحیط البرہانی میں ہے :

"في «فتاوي أبي الليث» : سئل الفقيه أبو بكر عن ‌حشيش ‌المسجد يخرج عن المسجد أيام الربيع، قال: إن لم يكن له قيمة فلا بأس بطرحه خارج المسجد ولا بأس برفعه والانتفاع به."

(المحيط البرهاني،كتاب الوقف ، الفصل الحادي والعشرون: في المساجد وهو أنواع 6/ 210 ط: دارالكتب العلمية)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"‌حشيش ‌المسجد إذا أخرج من المسجد أيام الربيع إن لم تكن له قيمة لا بأس بطرحه خارج المسجد ولمن رفعه أن ينتفع."

(الفتاوي الهندية ،كتاب الوقف ، الفصل الثاني في الوقف وتصرف القيم وغيره في مال الوقف عليه 2/ 459 ط: رشيدية)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال: مسجد میں پہلےٹائیل لگےہوئے تھے، لیکن جب وہ بوسیدہ اورکمزرورہوگئے توان کواکھاڑکرپکافرش بنایاگیا،اورٹائیل اکھاڑلیے گئے اوربیکارپڑے ہیں ، توکیاان کوفروخت کرناجائزہے ؟ چونکہ پھران پرجوتےبھی پڑیں گے، گندگی بھی ہوگی ، جب کہ ان پرعرصہ درازتک لوگوں نے نمازپڑھی ہے ، لہذافروخت کرناکیساہے ؟ اوراس کوکس مدمیں دیں؟

الجواب حامداومصلیا:بہتریہ ہےکہ کسی دوسری مسجد کے فرش کےلیےخریدکراستعمال کرلیاجائے، یہ بھی درست ہے کہ کوئی آدمی خریدکردیوارمیں لگالے، مسجد سےجداہونےکےبعداس کاوہ حکم وادب نہیں رہاجوکہ مسجدمیں تھا۔"

(فتاوی محمودیہ ،باب احکام المساجد ،23/  132ط: فاروقیہ کراچی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144405101823

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں