اگر کوئی بنا کسی عذر کے لکڑی کے تختے پر نماز پڑھے جو کہ زمین سے اوپر اٹھا ہو (یعنی پائے لگے ہوں) توکیا اس کی نماز کی قبولیت پر اثر ہوگا؟ یہ سوال اس لیے پوچھنا ضروری ہے کہ آج کل لکڑی کی جائے نمازیں بن رہی ہیں جو تختہ نما ہیں اور ان کو پائے لگائے گئے ہیں!
واضح رہے کہ نماز ہر ایسی ٹھوس چیز پر پڑھنا اور پڑھانا درست ہے جو پاک ہو اور سجدہ کی حالت میں سر اُس پر ٹِک سکے، اب اگر کوئی شخص لکڑی کا تختہ بنوا کر اس پر نماز ادا کرتا ہے تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، اس پر نماز پڑھنا درست ہو گا۔
ہاں! اگر تختہ ایسا بنایا گیا ہو کہ اس کی اونچائی ڈیڑھ فٹ ہو اور وہ تخت امام صاحب کے لیے بنایا گیا ہو کہ وہ اس پر کھڑے ہو کر نماز پڑھائیں تو امام صاحب کا اس قدر (ڈیڑھ فٹ یا اس سے زیادہ) بلند تخت پر کھڑے ہو کر نماز پڑھانا مکروہ ہو گا، لیکن اگر امام کا تخت اتنا اونچا نہیں ہے، تو ایسے تخت پر امام صاحب کا کھڑے ہو کر نماز پڑھانا بھی مکروہ نہیں ہو گا۔
الفتاوی الهندیة، کتاب الصلاة، الباب الخامس عشر في صلاة المسافر، (1/143) ط: رشیدیة:
"وأما الصلاة علی العجلة فإن کان طرفها علی الدابة و هي تسیر أو لاتسیر فهي صلاة علی الدابة، وقد مرّ حکمها، و إن لم یکن فهي بمنزلة السریر، وکذا لو رکز تحت المحمل خشبة حتی بقي قراره علی الأرض لا علی الدابة یکون بمنزلة الأرض، کذا في التبیین".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 646):
"(وانفراد الإمام على الدكان) للنهي، وقدر الارتفاع بذراع، ولا بأس بما دونه، وقيل: ما يقع به الامتياز، وهو الأوجه، ذكره الكمال وغيره".
العناية شرح الهداية (1/ 413):
"ويكره أن يكون الإمام وحده على الدكان". فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144107200456
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن