بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لا الہ الا اللہ کےذکر کی شرعی حیثت


سوال

 الا اللہ کے ذکر کے جواز میں عام طور سے جو دلائل پیش کی جاتی ہیں میں نے کئی کتابوں سے ان کا مطالعہ کیا ہے ، سو اس کے جواز کے بارے میں میرا کوئی سوال یا اشکال نہیں ہے ، بلکہ سوال یہ ہے کہ اس طرح کے ذکر کی ضرورت کیا ہے ؟ قرآن اور احادیث میں ذکر الله کے بہت سارے الفاظ مذکور  ہوئے ہیں ایسے الفاظ سے ذکر کرنے کی کیا ضرورت ہے جو قرآن وحدیث میں نہ ہوں؟

کہنے کا مطلب ہے کہ مشائخ صوفیہ نے اس ذکر کو کن کن فوائد کے پیش نظر تجویز کیا تھا ؟ براه مہربانی عقلی ونقلی دلائل اور حوالوں کے ساتھ بتائیں ،اسی طرح" الا اللہ "کے ذکر کے جواز میں جو دلائل دی جاتی ہیں وہ ہیں نحوی يا لغوی، اور جو فوائد ذکر کئے جائیں گےوہ ہوں گے عقلی، میرا سوال یہ ہے کہ ایسی کوئی اصولی دلیل ہے جس کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن اور حدیث میں مذکور الفاظِ ذکر پر اکتفا کرنا ضروری نہیں، بلکہ اصلاحی یا باطنی فوا‌ئد کے پیش نظر اُن کے علاوہ دوسرے الفاظ میں ذکر کرنا یا مذکورہ الفاظ کا کچھ حصہ حذف کردینا بھی جائز ہے؟ فقہ سے ایسے چند مسائل ذکر کریں جو اِس اصول کی بنا پر مستنبط کئے گئے ہوں .  غير مقلدين يا جو لوگ اس طرح کے ذكر کو بدعت کہتے ہیں كيا ان کا ایسا کوئی فقہی موقف ہے جو اسی اصول کے تحت آجاتا ہے؟ یعنی جس پر الا اللہ یا اس طرح کےالفاظِ ذكر كے جواز کا دارومدار ہو؟ تاکہ ہم یہ کہہ سکیں کہ اگر ان الفاظ سے ذکر کرنا بدعت ہے پھر تمہارا یہ موقف بھی بدعت ہے! کیونکہ یہ دونوں ایک ہی اصول کے تحت سے نکلےہوئے ہیں۔ 

جواب

واضح رہے کہ قرآن کریم اور احادیثِ مبارکہ میں ذکرکرنے کی ترغیب اور فضائل وارد ہوئے ہیں،  خاص طور پر لا الہ الا اللہ کی فضیلت بھی حدیث میں آئی ہے، اور تمام اذکار میں افضل ذکر لاالٰہ الا اللہ کو قرار دیا ہے۔

سننِ ترمذی میں ہے:

"عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما يقول : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : "أفضل الذكر لا إِله إِلَّا الله، وأفضل الدعاء الحمد لله."

( أبواب الدعوات عن رسول اللہ صلى اللہ  عليهِ وسلم، باب: ما جاءأن دعوةَالمسلم مستجابة،ج:5،ص:325،الرقم:3383،ط:دارالغرب الإسلامى) 

یعنی "سب سے افضل ذکر "لا الہ الا اللہ" ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے"۔

حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویؒ نے اذکار و دعوات کو دس قسموں میں تقسیم کیا ہے:

’’۱:… تسبیح۔ ۲:… تحمید۔ ۳:… تہلیل۔ ۴:… تکبیر۔ ۵:… فوائد طلبی اور پناہ خواہی۔ ۶:… اظہار فروتنی و نیاز مندی۔ ۷:… توکل۔ ۸:… استغفار۔ ۹:… اسمائے الٰہی سے برکت حاصل کرنا۔ ۱۰:… درود شریف۔‘‘

محدث دارالعلوم دیو بند حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری رحمہ اللہ  اس کی تشریح یوں فرماتے ہیں:

"تیسرا ذکر تہلیل ہے، ’’لاإلہ إلا اللّٰہ‘‘میں توحید اور شانِ یکتائی کا بیان ہے،  یہ جملہ شرک جلی و خفی کو دفع کرتا ہے اورجملہ حجابات کو رفع کرتا ہے، حدیث میں ہے’’ لاإلہ إلا اللّٰہ‘‘ کے لیے اللہ تعالیٰ سے وَرے کوئی حجاب نہیں، یہاں تک کہ یہ کلمہ اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے۔"  (تحفۃ الالمعی: 8/ 42)

حکیم الامت حضرت تھانوی نے لا الہ الااللہ کے متعلق ایک سوال کے جواب میں فرمایا:

"جائز ہے، اس لیے کہ زیادہ سے زیادہ مستثنیٰ منہ اور عامل کا حذف لازم آتا ہے اور اس کا قرینہ کے وقت حذف کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ ’’افصح العرب والعجم ﷺ کے کلام میں مستثنیٰ کا حذف واقع ہوا ہے، حذف مستثنیٰ کی مثال ابن ماجہ میں حضرت ابن عباسؓ کے واسطے سے  حدیث ہے"وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم قال كذلك لا يجتنى من قربهم ‌إلا - ‌قال ‌محمد ‌بن ‌الصباح: كأنه يعني - الخطايا»"، آپ ﷺ کے اس کلام میں مستثنیٰ کا ذکر نہیں ہے، اس لیے کہ وہ بالکل واضح ہے، اور حدیث پاک میں مستثنیٰ منہ کے حذف کی مثال وہ حدیث ہے جس کی شیخین نے حضرت ابن عباسؓ کے واسطے سے تخریج کی ہے، اور ہمارے زیر بحث مسئلہ میں قرینہ ظاہر ہے اوریہ قرینہ کہیں قولی ہوتا ہے جبکہ ذکر ’’الا اللہ‘‘ سے پہلے ’’لا الہ الا اللہ‘‘ پڑھا گیا ہو، اور کہیں حالی ہوتا ہے اس لیے کہ ایک مسلمان کے حال سے یہی ظاہر ہے کہ وہ غیر اللہ کی الوہیت کی نفی کا اعتقاد رکھے گا۔"( ماخوذ امداد الفتاوی)

اسی طرح لا الہ الا اللہ چند بار کہنے کے بعد اس کلمے کو ذہن میں جمانے کی نیت سے صرف الا اللہ کو بطورِ تاکید پڑھنے میں بھی حرج نہیں، مشائخِ صوفیہ اسی غرض سے الا اللہ کا ذکر کراتے ہیں ، نیز صوفیاء کے ہاں لاالٰہ الا اللہ کا ذکر کرنے کے بعد توحید الہی کو مزید راسخ کرنےکے لیے بہ طور تاکید صرف الا اللہ کا ذکر کرنا بھی جائز ہے ، اور مشائخ کے یہاں صرف الا اللہ کے ذکر کا یہی محمل ہے، اسی طرح لا الہ الا اللہ چند بار کہنے کے بعد اس کلمے کو ذہن میں جمانے کی نیت سے صرف الا اللہ کو بطورِ تاکید پڑھنے میں بھی حرج نہیں، مشائخِ صوفیہ اسی غرض سے الا اللہ کا ذکر کراتے ہیں ۔ 

 مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(أفضل الذكر: لا إله إلا الله» ) : وفي رواية: هي أفضل الحسنات. رواه أحمد، لأنه لا يصح الإيمان إلا به. قال الطيبي: ذكر بعض المحققين أنه إنما جعل التهليل أفضل الذكر، لأن للتهليل تأثيرا في تطهير الباطن عن الأوصاف الذميمة التي هي معبودات في باطن الذاكر. قال تعالى: {أفرأيت من اتخذ إلهه هواه} [الجاثية: 23] فيفيد نفي عموم الآلهة بقوله: لا إله، ويثبت الوحدة بقوله: إلا الله، ويعود الذكر عن ظاهر لسانه إلى باطن قلبه، فيتمكن فيه ويستولي على جوارحه، وجد حلاوة هذا من ذاق".

(كتاب أسماء الله تعالى، ثواب التسبيح والتحميد والتهليل والتكبير، 4/ 1598، دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100662

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں