بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لے پالک کی نسبت ان کے حقیقی والدین کی طرف کرنا ضروری ہے


سوال

میری شادی کو پورے 9سال  ہو چکے ہیں اورمیری کوئی اولاد نہیں ہے ،ہر میاں بیوی کی طرح ہماری بھی خواہش   ہے کوئی ہماری  اولاد ہوتی،        ہم نے تمام علاج بھی کروالیا ہے لیکن اللہ کی مرضی نہ ہوئی  ضرور اس میں   بہتری ہوگی ۔اب مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ کیا میں اولاد کو گود لے سکتا ہوں اور اسکو اپنا نام دے سکتا  ہوں باپ کی جگہ  ،کیونکہ اسکول سے لے کر شناختی کارڈ  تک اس کی ضرورت ہوتی ہے تو ہر جگہ اصلی والد کا نام دینا ممکن نہ ہوگا ،براہِ کرم قرآن وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہلے پالک کی نسبت ان کے حقیقی والدین ہی کی طرف کرنا ضروری ہے  ، منہ بولا بیٹا یا بیٹی بنانے سے وہ حقیقی اولاد نہیں بن جاتی اور نہ ہی اس پر حقیقی اولاد والے احکامات جاری ہوں گے ، چناں چہ حقیقی اولاد کی طرح وہ لے پالک وراثت کا حقدار نہیں ہوتا، اسی طرح اگر وہ لے پالک گود لینے والوں کیےلئے نامحرم ہو تو بلوغت کے بعد پردہ کا اہتمام ضروری ہے ، اسی طرح دنیاوی  تمام معاملات اور   کاغذات میں اس کو حقیقی والدین ہی کی طرف منسوب کیا جانا ضروری ہے یعنی کاغذات میں والدین کے خانے میں حقیقی والدین ہی کا نام لکھا جائےگا ،  پرورش کرنے والوں کا نام والدین کےخانے  میں لکھوانا شرعاً ناجائز ہے  ،البتہ سرپرست کے خانے میں پرورش کرنے              والوں کا نام لکھا جا سکتاہے    ،  محض گود لینے سے محرمیت قائم نہیں ہو تی البتہ اگر گود لینے والی خاتون اس لے پا لک کو رضاعت کی مدت میں دودھ پلادے تو اس بچے کی رضاعی ماں بن جائے گی اور اس کا شوہر ر ضاعی والد ، اگر خاتون کی بہن دودھ پلادے تو خاتون رضاعی خالہ  بن جا ئے گی اور اگر لے پالک بچی ہو تو شوہر کی بہن دودھ پلادے  تو شوہر رضاعی ماموں بن جائے گا  ، اگر ان امور کا خیال کرتے ہوئے کسی بچے کو اپنی پرورش میں لیا جائے تو شرعاً یہ جائز ہے ۔

چنانچہ قرآن کریم میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے :

"وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَاۗءَكُمْ اَبْنَاۗءَكُمْ ۭذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْ ۭ وَاللّٰهُ يَـقُوْلُ الْحَـقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيْل"

 [الأحزاب: آیہ:5] 

سنن ابی داؤد میں ہے: 

"عن أنس بن مالك، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: من ‌ادعى ‌إلى ‌غير ‌أبيه، أو انتمى إلى غير مواليه، فعليه لعنة الله المتتابعة، إلى يوم القيامة"

(باب الرجل ینتمی الی غیر موالیہ،ج:4،ص:330،ط:المکتبۃ العصریہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100801

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں