بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لے پالک بچے کا حکم حقیقی بچےجیسا کا نہیں


سوال

میرے ماموں باہر رہتے ہیں اور بچپن سے ان کے گھر کے تمام معاملات ان کی ضروریات میں ہی دیکھ رہا ہوں، ان کی چار بیٹیاں ہیں، اس لیےمیری مامی نے مجھے بیٹا بنایا ہوا ہے اور ان کی بیٹیاں بھی مجھے بھائی مانتی ہیں، اب جب ہم جوان ہوگئے ہیں تو میری بڑی کزن کے رشتہ آنے پر میری مامی نے اس کو مجھے دینے کا فیصلہ کیا ہے، کیا منہ بولی بہن سے نکاح ہو جاتا ہے؟،یا منہ بولی ماں کی خدمت میں رہا جا سکتا ہے؟اگر نکاح ہوتا ہے تو میری مامی محرم بن جائےگی ،اس صورت میں میں ان کی خدمت کر سکتا ہوں اگر میرا رشتہ نہیں ہو سکا، تو کیا میں ان کے گھر آ جا سکتا ہوں اور ان کی ضروریات پوری کر سکتا ہوں یا نہیں؟

جواب

واضح  رہےکہ لے پالک بچوں کی نسبت ان کے حقیقی والدین ہی کی طرف کی جائے ، جن کی پشت سے وہ پیدا ہوئے ہیں،  اس لیے کہ کسی کو منہ بولا بیٹا بنانے سے شرعًا وہ حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا اور نہ ہی اس پر حقیقی اولاد  والے احکام جاری ہوتے ہیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کا اپنی کزن کے ساتھ نکاح جائز ہے،اور کزن کی ماں سائل کی ساس  بن جائے گی تو   محرم بن جائےگی،اور اگر نکاح نہیں ہوا،تو پردے کے اہتمام کے ساتھ ممانی  کے گھر جاسکتا ہے اور گھر کے کام کرسکتا ہے۔

تفسیر قرطبی میں ہے:

"قوله تعالى: (ادعوهم لآبائهم) نزلت في زيد بن حارثة على ما تقدم بيانه. وفي قول ابن عمر: ما كنا ندعو زيد بن حارثة إلا زيد بن محمد دليل على أن التبني كان معمولا به في الجاهلية والإسلام يتوارث به ويتناصر إلى أن نسخ الله ذلك بقوله: (ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله) أي أعدل. فرفع الله حكم التبني ومنع من إطلاق لفظه وأرشد بقوله إلى أن الأولى والأعدل أن ينسب الرجل إلى أبيه نسبا فيقال: كان الرجل في الجاهلية إذا أعجبه من الرجل جلده وظرفه ضمه إلى نفسه وجعل له نصيب الذكر من أولاده من ميراثه وكان ينسب إليه فيقال فلان بن فلان. وقال النحاس: هذه الآية ناسخة لما كانوا عليه من التبني وهو من نسخ السنة بالقرآن فأمر أن يدعوا من دعوا إلى أبيه المعروف فإن لم يكن له أب معروف نسبوه إلى ولائه فإن لم يكن له ولاء معروف قال له يا أخي يعني في الدين قال الله تعالى: (إنما المؤمنون إخوة)."

(سورۃالأحزاب،الأية:5، 119/4،ط:دار الكتب المصرية)

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن أنس بن مالك، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: «من ادعى إلى غير أبيه، أو انتمى إلى غير مواليه، فعليه ‌لعنة ‌الله ‌المتتابعة، إلى يوم القيامة»."

(کتاب الادب، ابواب النوم ،330/4،رقم الحدیث:5115،ط:المکتبۃ العصریۃبیروت)

ترجمہ: ’’حضر ت انس بن مالک رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرماتے ہوئے سناہےکہ جو شخص اپنےباپ کے علاوہ کسی اور کا بیٹا ہونے کا دعو ی کرے یا (کوئی غلام ) اپنے آقاؤں کی بجائےدوسروں کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے تو اس پر اللہ تعالی کی مسلسل لعنت ہو۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100339

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں