اگر کسی آدمی نے دوبار غصہ میں ’’طلا‘‘کہا،جب کہ پورا الفاظ ادا نہیں کیے گئےاور تیسری دفعہ پر کسی نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تو اب یہ معلوم ہی نہیں کہ تیسری دفعہ کہا یا نہیں ،جب کہ و ہ رہے ہیں کہ میں نےتیسری دفعہ ’’طلا‘‘نہیں کہا تو اس صورت میں کیا حکم ہے؟
صورت ِ مسئولہ میں اگر کسی شخص نے دوبار غصه ميں صرف لفظ "طلا " کہا اور تیسری مرتبہ پر کسی نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اورشوہر کا کہنا ہے کہ میں نے تیسری دفعہ’’ طلا‘‘ نہیں کہا ہے اوربیوی کی طرف سے طلاق کا دعویٰ نہ ہو تو ایسی صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔
فتاوی شامی میں ہے :
"(هو) لغة رفع القيد لكن جعلوه في المرأة طلاقا وفي غيرها إطلاقا، فلذا كان أنت مطلقة بالسكون كناية وشرعا (رفع قيد النكاح في الحال) بالبائن (أو المآل) بالرجعي (بلفظ مخصوص) هو ما اشتمل على الطلاق، فخرج الفسوخ كخيار، عتق وبلوغ وردة فإنه فسخ لا طلاق، وبهذا علم أن عبارة الكنز والملتقى منقوضة طردا وعكسا بحر
(قوله هو ما اشتمل على الطلاق) أي على مادة ط ل ق صريحا، مثل أنت طالق، أو كناية كمطلقة بالتخفيف وكأنت ط ل ق وغيرهما كقول القاضي فرقت بينهما عند إباء الزوج الإسلام والعنة واللعان وسائر الكنايات المفيدة للرجعة والبينونة ولفظ الخلع فتح، لكن قوله وغيرهما أي غير الصريح والكناية يفيد أن قول القاضي فرقت، والكنايات ولفظ الخلع مما اشتمل على مادة ط ل ق وليس كذلك، فالمناسب عطفه على ما اشتمل والضمير عائد على ما وثناه نظرا للمعنى لأنه واقع على الصريح والكناية".
(کتاب الطلاق، ج:3، نص:226، ط:دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144605101702
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن