میری شادی والدصاحب کے خالہ زاد سے ہوئی،کچھ مہینے تک خوشی سے زندگی بسر کرتے رہے،اسی اثناء میں میراشوہر دبئی کام کرنے چلاگیا اور میں نے آپریشن کیا،ڈاکٹر نے بتایا کہ آپ کی اولاد نہیں ہوسکتی،یہ بات میں نے شوہر کو بتلائی تو شوہر نے کہا کہ ”میں دوسری شادی کروں گا“اس کے گھر والوں کا رویہ بھی میرے ساتھ تبدیل ہوااور طرح طرح کے طعنے دیتے تھے کہ آپ بانجھ ہو وغیرہ۔اگر میں شوہر کو کچھ شکایات کرتی تو وہ دھمکی دیا کرتے تھے اور کسی چیز کی ذمہ داری بھی نہیں لیتے تھےاور خرچہ بھی نہیں دیتے تھے،ایک دن ہم موبائل پر بات کررہے تھے کہ باتوں میں تیز ہوگئےاور لڑائی کے دوران مجھے کہا کہ”تم مجھ سے آزاد ہو“ اور موبائل بند کردیااور پھر ابو کو کال کی کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے،اگر کوئی لینے آئے تو اسے نہ روکنا،/ 2023/ 10 9 کو میں اپنے والدکے ساتھ کراچی آئی،اب پوچھنایہ ہے کہ شوہرکے کہنے سے کہ ”تم مجھ سے آزاد ہو“سے کونسی طلاق واقع ہوتی ہے؟
2۔ اگر واقعی طلاق ہوئی ہے تو عدت کب سے شمار ہوگی؟
لفظِ ”آزاد“ وقوعِ طلاق کے اعتبار سے صریح ہے، یعنی لفظِ آزاد سے دی گئی طلاق نیت کے بغیر ہی واقع ہو جائے گی، جیسا کہ صریح کا حکم ہے، جب کہ لحوق کے اعتبار سے بائن ہے، یعنی لفظ ”آزاد“سے ایک طلاق بائن واقع ہوتی ہے،جس سے نکاح اسی وقت ٹوٹ جاتا ہے، پھر دوبارہ نکاح کیے بغیر ساتھ رہنا شرعاً جائز نہیں ہوتا۔ اس لیےصورت مسئولہ میں شوہر کے الفاظ”تم مجھ سے آزاد ہو“ کہنے سے ”بیوی“ پر ایک طلاق بائن واقع ہو کر نکاح ختم ہوچکاہے۔
2۔طلاق کے وقت سےہی ”بیوی“ کی عدت شروع ہوچکی ہے،عدت تین ماہواریاں ہیں،اگر ماہواری آتی ہو اور اگر نہ آتی ہوتو تین مہینے اور اگر امید سے ہوتو وضع حمل ہے۔عدت مکمل ہونے کے بعد سائلہ آزاد ہو جائے گی، اپنی مرضی سے جہاں چاہے گی نکاح کر سکے گی۔البتہ طلاق دینے والے شوہر سے عدت کے دوران یا عدت کے بعد دوبارہ نئے مہر کے ساتھ معتبر گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کےساتھ نکاح کر کے ساتھ رہ سکتی ہے،اس صورت میں شوہر کو آئندہ کے لیے صرف دو طلاقوں کا حق ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحا لأنه صار فاشيا في العرف في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت۔"
(باب الصریح الطلاق، ج: 3، ص: 252، ط، دار الفکر)
تحفة الفقہاء میں ہے:
"وأما عدة الطلاق فثلاثة قروء في حق ذوات الأقراء إذا كانت حرة .....وأما في حق الحامل فعدتها وضع الحمل لا خلاف في المطلقة لظاهر قوله: {وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن }."
(كتاب الطلاق، باب العدة ، ج: 2، ص: 244، ط: دار الكزب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604101896
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن