بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لفظ طلاک سے طلاق واقع ہوتی ہے


سوال

میں نے اپنی پسند کی شادی کی تھی ،شادی کے چند دن بعد والدہ نے کہاکہ اس لڑکی کو طلاق دےدو ،تو میں نے اس لڑکی سے کہاکہ میں تمہیں طلاق نہیں دینا چاہتا ہوں ،لیکن مجبوری میں الفاظ کی تبدیلی کےساتھ میں یہ طلاق کے الفاظ کہوں گا،پھر سب کے سامنے میں نے ایک دفعہ کہا کہ میں تمہیں طلاق دیتاہوں ،پھر دوسری دفعہ اور پھر تیسری دفعہ میں نے کہا میں تمہیں لاق دیتاہوں ،میرے بھائیوں نے کہا کہ تم نے صحیح طلاق نہیں دی ،دوبارہ طلاق دو ،جب میں نے دوبارہ طلا ق دی تو میں نے پہلی اور دوسری دفعہ یہ کہا کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ،اور تیسری دفعہ میں نے قصداًکہامیں تمہیں طلاک دیتاہوں ،میں نے اپنے ذہن میں سوچاکہ "ق"کی جگہ"ک"بولوں گا ،میرے دل میں طلاق کی نیت نہیں تھی ،میں بالکل بھی اس کو چھوڑنا نہیں چاہتاہوں،اگر مذکورہ صورت میں طلاق ہوجاتی ہے تو اس لڑکی کا مجھ پر کیاحق ہے ؟میں نے نکاح میں یہ لکھوایاتھاکہ میں اس لڑکی کا مہر جب بھی چاہوں دوں گا ،لڑکی بھی اس بات پر راضی تھی،اور یہ مہر مؤجل 5 لاکھ روپے ہے۔

وضاحت :15 دن پہلے شادی ہوئی ہے اور لڑکی مجھ سے حاملہ ہے ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے اپنی بیوی کو پہلی مرتبہ یہ کہا"میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ،میں تمہیں طلاق دیتاہوں ،میں تمہیں لاق دیتاہوں "اور پھر بھائی کے کہنے پر دوبارہ کہا"میں تمہیں طلاق دیتاہوں ،میں تمہیں طلاق دیتاہوں ،میں تمہیں طلاک دیتاہوں "تو اس سے سائل کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ،نکاح ختم ہوچکاہے، بیوی حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے اور رجوع یا تجدید نکاح کی گنجائش نہیں۔

طلاق کے بعد سائل کے ذمہ اپنی بیو ی کو کل مہر دینا واجب ہے۔

الدالمختار مع ردالمحتار میں ہے:

"ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك وتلاك أو " ط ل ق " أو " طلاق باش " بلا فرق بين عالم وجاهل، وإن قال تعمدته تخويفا لم يصدق قضاء إلا إذا أشهد عليه قبله وبه يفتى۔۔۔(وفي أنت الطلاق) أو طلاق (أو أنت طالق الطلاق أو أنت طالق طلاقا يقع واحدة رجعية إن لم ينو شيئاأو نوى) يعني بالصدر."

(کتاب الطلاق ،باب الصریح ،ج:3،ص:252،ط:سعید)

الدرالمختار مع ردالمحتارمیں ہے :

"(وتجب) العشرة (إن سماها أو دونها و) يجب (الأكثر منها إن سمى) الأكثر ويتأكد (عند وطء أو خلوة صحت) من الزوج (أو موت أحدهما)."

(كتاب النكاح ،باب المهر ،ج3:ص102:ط سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100291

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں