بیوی کے ساتھ رات کو جھگڑا ہوا، پھر صلح ہو گئی، تو صبح ڈیوٹی کے لیے تیاری ہو رہی تھی، تو میں نے اپنی بیوی کو بولا کہ اگر تو والدین کے گھر میرے اجازت کے بغیر گئی تو ایک دو تین، طلاق کا لفظ استعمال نہیں کیا اور نہ سوچ میں تھا اور نہ ہی شوق ہے، بیوی مجھے بہت پسند ہے، دن گزرتے گئے معمول کی زندگی شروع ہےمفتی صاحب جواب کا منتظر ہوں۔
صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے لفظِ طلاق کے بغیر صرف یہ کہا کہ "اگر تو والدین کے گھر میرے اجازت کے بغیر گئی تو ایک دو تین"،تو اگر بیوی والدین کے گھر اجازت کے بغیر جائے گی، تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، تاہم طلاق کا مسئلہ بہت نازک مسئلہ ہے، اس لیے آئندہ کے لیے اس طرح کے جملے کہنے سے احتراز کرنا چاہیے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(والطلاق يقع بعدد قرن به لا به) نفسه عن ذكر العدد، وعند عدمه الوقوع بالصيغة.
(قوله والطلاق يقع بعدد قرن به لا به) أي متى قرن الطلاق بالعدد كان الوقوع بالعدد بدليل ما أجمعوا عليه من أنه لو قال لغير المدخول بها أنت طالق ثلاثا طلقت ثلاثا، ولو كان الوقوع بطالق لبانت لا إلى عدة فلغا العدد."
(كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، مطلب الطلاق يقع بعدد قرن به لا به، ج: 3، ص: 287، ط: دار الفكر)
فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:
سوال:
شخصے در حالت غضب زوجہ خود را گفت یکے ۔دو ۔سہ برو مادر و خواہر من ہستی بلا ذکر لفظ طلاق و بلا مذاکرہ طلاق ۔پس دریں صورت کدام طلاق واقع شود؟
جواب:
"بدون لفط طلاق و بدون مذاکرہ طلاق از لفظ یکے ۔دو ۔سہہ۔ مادر و خواہر من ہستی طلاق واقع نشود ۔واز لفط مادر و خواہر من ہستی بلا حرف تشبیہ طلاق واقع نہ شود ...الخ"
(کتاب الطلاق،ج:9،ص:284،ط:دار الاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607102179
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن