بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لفظ طلاق سے ملتے جلتے الفاظ سے طلاق کا حکم


سوال

سوال نمبر 1۔ پنجاب میں لوگ متعلقہ لفظ کو مُتَلْقَہْ پڑھتے ہیں اور بولتے ہیں ایک آدمی نے اسماعیل سے پوچھا مُتَلْقَہْ کون ہے اسماعیل نے کہامیں مُتَلْقَہْ ،جبکہ وہ جانتا ہے کہ یہ لفظ درست نہیں بولا گیا۔ کیا اسماعیل کی طلاق ہوگئی۔

سوال نمبر 2۔ پنجاب میں لوگ تعلق کو تَلَّکْ اور تَالُقْ پڑھتے اور بولتے ہیں علی کے انچارج نے پوچھا تمہارا عائشہ سے کیا تَلَّکْ ہے وہ بولا میری بیوی ہے یہ تَلَّکْ ہے یہ جانتے ہوئے کہ یہ لفظ غلط بولا ہے کیا علی کی طلاق ہوگئی اسی طرح اسماعیل سے عثمان نے پوچھا عائشہ سےتَالُقْ کس کا ہے اسماعیل بولا کہ میرا کیا اسماعیل کی طلاق ہوگئی یہ جانتے ہوئے کہ تَالُقْ لفظ غلط بولا ہے

جواب

واضح رہے کہ طلاق الفاظ طلاق سے واقع ہوتی ہے۔ کوئی لفظ جو الفاظ طلاق میں سے نہ ہو اگر اس کو غلط تلفظ کے ساتھ بولا جائے اور بولنے یا سننے میں وہ  لفظ طلاق کے مشابہ ہو تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔

نیز مطلقہ ہونا عورت کی صفت ہے نہ کہ مرد کی۔

۱)لہٰذا صورت مسئولہ میں ایک آدمی نے اسماعیل سے پوچھا مُتَلْقَہْ کون ہے، اور  اسماعیل نے جواب میں کہا’’میں مُتَلْقَہْ ‘‘، تو اس سے اسماعیل کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

۲) اسی طرح لفظ تعلق کو تَلُق بولنے سے، یا تَلَّکْ بولنے سے بھی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں مذکورہ جملوں سے علی اور اسماعیل کی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

نیز طلاق کے بارے میں وسوسے شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں ، ان کی وجہ سے بلا وجہ وہم نہیں کرنا چاہیے اور نہ ان خیالات کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.

وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، وكذا ما يفعله بعض سكان البوادي من أمرها بحلق شعرها لا يقع به طلاق وإن نواه."

(کتاب الطلاق،ج3،ص230،ط:سعید)

بدائع میں ہے:

"وكذا ‌كل ‌لفظ ‌لا ‌يحتمل الطلاق لا يقع به الطلاق، وإن نوى."

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع،كتاب الطلاق، فصل في الكناية في الطلاق،3/ 108،دار الكتب العلمية)

وفيه أيضا:

 

"ويستحيل أن ‌يثبت ‌باللفظ ما يمنع ثبوته."

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع،كتاب الطلاق، فصل في بيان الألفاظ التي يقع بها طلاق السنة، 3/ 91، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101106

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں