بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لفظِ طلاق لکھنے کے بعد طلاق کے وسوسے آنے کا حکم


سوال

 جناب میری شادی ہوئے کافی عرصہ ہوگیا ہم میاں بیوی الحمداللہ خوش و خرم زندگی گزار رہےہیں، مفتی صاحب! شادی کے کچھ عرصے بعد دماغ میں طلاق کو لےکر بہت وسوسے ہوتے تھے کہ میرے ساتھ خدا نخواستہ یہ معاملہ نہ پیش آ جائے ،عجیب سوچ اور خیالات آتے تھے، میں ایک دن گھر سے معمول کے مطابق کام پہ گیا ،ہم میاں بیوی میں نہ کوئی جھگڑا اور نہ کوئی اور مسئلہ ،آفس میں بیٹھا تھا، دماغ میں وسوسے اور خیالات بھی چل رہے تھے ،جن کا اوپر ذکر کیا ،پھر موبائل کے میسیج میں جاکر لفظ طلاق ٹائپ کیا اور ڈیلیٹ کر دیا ،نہ بیوی کا نمبر لکھا نہ ہی سینڈ کیا ،مہربانی فرماکر رہنمائی فرمائیں کہ اس سے طلاق ہوئی یا نہیں ہوئی؟ میں اپنی بیوی کو بہت چاہتا ہوں اور اس واقعہ سے دماغی طور پر بہت پریشان ہوں اور شدید وسوسوں کا شکار ہوں، اس بات کا ذکر میں نے کسی سے نہیں کیا، امید ہے کہ جلد از جلد جواب دے کر میری پریشانی دور کرنے میں میری مدد فرمائیں گے۔

جواب

 اگر سائل کا بیان واقعہ کے مطابق ہو کہ بیوی کی طرف نسبت کیےبغیرموبائل کے میسج کے اسکرین پر  صرف لفظ طلاق لکھ کر مٹا  دیا، تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی ، البتہ طلاق کا معاملہ بہت حساس ہوتا ہے اس لیے احتیاط کرنی چاہیے،اورو سوسوں سے حفاظت کے لیے اس آیت کا ورد کیا کریں:

﴿رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ ، وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ﴾

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس و الإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.و به ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق و لم يذكر لفظا لا صريحًا و لا كنايةً لايقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، و كذا ما يفعله بعض سكان البوادي من أمرها بحلق شعرها لايقع به طلاق و إن نواه."

(کتاب الطلاق، ج: 3 ص: 230 ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال الليث: الوسوسة حديث النفس، وإنما قيل: موسوس؛ لأنه يحدث بما في ضميره. وعن الليث: لا يجوز طلاق الموسوس".

(كتاب الجهاد ، باب المرتد ج: 4 ص: 224 ط: سعيد )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101349

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں