بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لفظ ’’چھوڑ‘‘ یا ’’چھوڑدیا‘‘ سے طلاق کا حکم


سوال

  لفظ چھوڑ  لوگ عام بات چیت میں بھی بولتے ہیں جیسے کوئی بات کر رہا ہو کہ حالات اچھے نہیں  ہےتو دوسرا شخص بات کاٹنے کے لیے کہتا ہے کہ" چھوڑ یار " اسی طرح بہت جگہوں میں استعمال ہوتا ہے، اسی طرح  مثلاً امجد نے اشرف سے کہا کہ مجھے کھانا کھلاؤ تو اشرف نے کھانا کھلانے سے بچنے کے لیے بولا  کہ میں نے رابعہ(اپنی بیوی) کو چھوڑ دیا ہے، امجد نے پوچھا کہ  کہاں  چھوڑا ہے؟تو اشرف نے کہا کہ  اس کی ماں کے گھر ،کیا اس طرح اشرف کی طلاق ہو جائے گی ؟جب کہ اشرف لفظ  چھوڑ سے اتنا خوف زدہ ہوا ہے کہ لوگوں سے بات کرتے ہوئے بھی لفظ چھوڑ سے ڈرتا ہے۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں جب اشرف نے کھانا کھلانے سے بچنے کے لیے بولا  کہ میں نے رابعہ(اپنی بیوی) کو چھوڑ دیا ہےتو اس سے بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوچکی ہے؛کیوں کہ غیرِ طلاق کے واضح قرائن موجود نہیں ہے، اور پھر امجد کے پوچھنے پر اشرف کا مذکورہ جواب دینے کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اس سے طلاق کے وقوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"بخلاف فارسية قوله سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري اهـ وقد صرح البزازي أولا بأن: حلال الله علي حرام أو الفارسية لا يحتاج إلى نية، حيث قال: ولو قال حلال " أيزدبروي " أو حلال الله عليه حرام لا حاجة إلى النية، وهو الصحيح المفتى به للعرف وأنه يقع به البائن لأنه المتعارف ثم فرق بينه وبين سرحتك فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت."

(کتاب الطلاق،باب الکنایات،ج:3، ص:299، ط:سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"والأصل الذي عليه الفتوى في زماننا هذا في الطلاق بالفارسية أنه إذا كان فيها لفظ لا يستعمل إلا في الطلاق فذلك اللفظ صريح يقع به الطلاق من غير نية إذا أضيف إلى المرأة وما كان بالفارسية من الألفاظ ما يستعمل في الطلاق وفي غيره فهو من كنايات الفارسية فيكون حكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام كذا في البدائع. إذا قال الرجل لامرأته: ‌بهشتم ‌ترا اززني فاعلم بأن هذه اللفظة استعملها أهل خراسان وأهل عراق في الطلاق وأنها صريحة عند أبي يوسف - رحمه الله تعالى - حتى كان الواقع بها رجعيا ويقع بدون النية. وفي الخلاصة وبه أخذ الفقيه أبو الليث وفي التفريد وعليه الفتوى كذا في التتارخانية."

(كتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل السابع في الطلاق بالألفاظ الفارسية، ج:1، ص:379، ط:دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100690

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں