بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

لفظ پاسہ سے طلاق کاحکم


سوال

 میں اور میری بیوی سوئے ہوئے تھے، کہ میری بیٹی نیند سے بیدار ہو کر رونے لگی، تو میں نیند سے بیدار ہوا تو میں نے اپنے بیوی کو نیند سے جگانےکے لیے کہا کہ اُٹھ (پشتو میں پاسہ) ، چھوٹی بیٹی ہے جو رو رہی تھی اور میری بیوی سو رہی تھی ،کیا لفظ اُٹھ کنایہ الفاظ میں سے ہے؟ یانہیں ؟

اس وقت میرے دل میں وساوس کی کثرت تھی میرا غالب گمان یہ ہے کہ یہ لفظ "پاسہ "یعنی اُٹھ بیوی کو نیند سے جگانے کے لیے کہا، لیکن شک سے خالی نہیں ہے،  اب میں فیصلہ نہیں کر سکتا کہ بیوی کو نیند سے جگانے کے غرض سے کہا "پاسہ" یعنی اُٹھ یا میرا نیت کچھ اور تھی ؟ مقامی علماء کہتے ہیں کہ اٹھ ہمارے عرف میں کنایہ الفاظ میں سے نہیں ہے۔

جواب

 سائل نے  اپنی بیوی کو نیند سے جگانے کے لیے پشتو میں "پاسہ" (اُٹھ)کہا  اور یہ لفظ نیند سے بیدار کرنےکی غرض سے تھا تو اس سے سائل کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔

باقی سائل وساوس کی شکار نہ ہو، بلاوجہ اپنے آپ کو شک میں ڈال کر اپنے اور بیوی کے درمیان غلطی فہمیاں پیدانہ کرے۔

 فتاوی شامی  ميں ہے:

"(قوله ‌وركنه ‌لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي."

(کتاب الطلاق ،رکن الطلاق،ج:3،ص:230،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100781

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں