بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لفظ فارغ ہے سے طلاق کا حکم


سوال

اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کے بارے میں کہا کہ وہ فارغ ہے باقی جو فیصلہ گھر جاکر والد صاحب کرے گا وہ     مجھے قبول ہے، اور رشتہ یعنی (تعلقات )ختم کرنے کے لیے جو بھی سوچ تھی وہ اس کی والدہ اور اس کی خالہ سےمتعلق تھی بیوی سےمتعلق نہیں تھی لیکن مذکورہ الفاظ اِستعمال کرتے وقت طلاق کی نیت نہیں تھی، تو اس صورتِ میں طلاق کا کیاحکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شوہر کا اپنی بیوی کے متعلق یہ الفاظ کہنا"کہ وہ فارغ ہے"  یہ طلاق کےالفاظ کنائی ہیں ،اگرمذاکرہ طلاق کےدوران یاطلاق کی نیت سے کہےتواس سےایک طلاق بائن واقع ہوجاتی ہےنکاح ٹوٹ جاتاہے،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے مذکورہ الفاظ "فارغ ہے"کےاستعمال کرتے وقت اگر واقعتاً طلاق کی نیت نہیں کی تھی اور نہ ہی مذاکرہ طلاق تھاتوایسی صورتِ میں شرعاًکوئی طلاق  واقع نہیں ہوئی ہے،نکاح بدستور قائم ہے۔

ہندیہ میں ہے:

" ومایصلح جواباً وشتماً خلیة ،بریة، بتة،بتلة، بائن حرام  ۔۔۔۔ ففی حالة الرضاء لایقع فی الفاظ کلها الإ بالنیة."

(كتاب الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات في الطلاق، ج:1، ص:374، ط:دار الفكر بيروت)

محیط برہانی میں ہے:

"إذا قال لها أنت ‌خلية أو قال برية، أو قال بتة أو قال بائنة، وقال لم أنو به الطلاق فالأصل في جميع ألفاظ الكنايات أنه لا يقع الطلاق إلا بالنية."

(كتاب الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات، ج:3، ص:231، ط: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101683

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں