بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لفظِ آزاد سے طلاق دینے اور الفاظِ طلاق میں تضاد کا حکم


سوال

ڈیڑھ سال پہلے میری بیوی اور میری والدہ کے مابین کسی بات پر تنازع ہوا،جس کی وجہ سےمیری بیوی میری بیٹی کو لے کر گھر سے نکل گئی،میں نے اسے راستے میں  روک لیا،اور واپس گھر لے آیا،تادیب کی تو بیوی نے کہا کہ "تم اور تمہارہ والدہ مجھ پر اتنا ظلم کرتے ہو تو مجھے آزاد کر دو"،(پشتو الفاظ یہ تھے "ما خلاسہ کہ")جس پر میں نے کہا کہ" جاؤ آزاد کر دیا"پھر اب ڈیڑھ سال گزرنے کے بعدجب وہ ابھی اپنے میکے گئی تو پانچ دن وہاں رک گئی اور پانچوں دن مجھے ان کے گھر والوں نے بلایا اور بتایا کہ تم نے اپنی بیوی کو ڈیڑھ سال پہلے اُس موقع پر  تین طلاق دی تھیں ،بیوی کایہی دعوی ہے،کہ تم نے مجھے تین طلاق دی ہیں،میں نے کہا کہ میں نے صرف ایک طلاق دی تھی،تین تو نہیں دیں،

سوال یہ ہے کہ مذکورہ صورت کا کیا حکم ہے ایک طلاق ہوئی ہے یا تین؟جبکہ اس واقعے کے بعد ہم ڈیڑھ سال تک ساتھ رہے،ہماری شادی کو بیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے،میں اپنا گھر بچانا چاہتا ہوں،لیکن بیوی شاید دوسروں کی  باتوں میں آکر ایسا کر رہی ہے،اور اتنے عرصے بعد ایسا کہہ رہی ہے۔

جواب

واضح رہے کہ لفظِ آزاد ہمارےعرف میں وقوعِ طلاق کے اعتبار سے صریح ہے، یعنی لفظ آزاد سے دی گئی طلاق نیت کے بغیر ہی  واقع ہو جاتی ہے، اور طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے،جس سے  نکاح  اسی وقت ٹوٹ جاتا ہے، پھر دوبارہ ساتھ رہنا شرعاً جائز نہیں ہوتا، دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے تجدیدِ نکاح  کرنا ضروری ہوتا ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں سائل نے جب بیوی کو یہ الفاظ کہے کہ "جاؤ آزاد کر دیا"تو مذکورہ الفاظ کی وجہ سے اسی وقت سے سائل کی بیوی پرایک طلاقِ بائن واقع ہو چکی تھی،اور نکاح ٹوٹ چکا تھا،اس کے بعد بغیر تجدیدِ نکاح کے ساتھ رہنا ناجائز اور حرام تھا،جس پر سائل اور اس کی بیوی پر سچے دل سے توبہ و استغفار لازم ہے،البتہ اس کے علاوہ اگر سائل نےکبھی کوئی طلاق نہیں دی تو ایسی صورت میں سائل بیوی کی رضامندی سے نئے مہر اور  دو گواہوں کی موجودگی میں  نئے ایجاب و وقبول کے ساتھ تجدیدِ نکاح کر کے اپنا گھر بسا سکتا ہے،اور آئندہ کے لیے سائل کے پاس بقیہ دو طلاق کا حق ہو گا،اور اگر بیوی اپنے شوہر سے علیحدہ ہونے کے وقت سے اپنی عدت( پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو تو،اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک ) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے، سائل اسے تجدیدِ نکاح پر مجبور نہیں کر سکتا،البتہ بیوی اگر اپنے بچوں کی خاطر سائل کے ساتھ نکاح کرےگی تو دانشمندی ہو گی۔

باقی بیوی اگر بدستور تین طلاقوں  کا دعویٰ کرتی ہے اور سائل اس کا انکار کرتا ہے،تو ایسی صورت میں (میاں، بیوی) پر لازم ہے کہ کسی مستند عالمِ دین یا مفتی صاحب کے پاس جاکر انہیں اپنے اس مسئلے کا  فیصل/ ثالث مقرر کریں، پھر بیوی  اس کے سامنے اپنامذکورہ  دعویٰ پیش کرے  اور فیصل/ ثالث بیوی  سے اس کے دعوی پر شرعی گواہ طلب کرے، اگر بیوی دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کو   گواہ پیش کردے تو  فیصل/ ثالث بیوی پر   طلاق واقع ہونے کا فیصلہ کرے گا ، اگر  بیوی شرعی گواہ  پیش  نہ کرسکے تو بیو ی کے مطالبہ پر شوہر  پر قسم آئے گی،  اگر شوہر قسم اٹھا لیتا ہے  تو  فیصل/ ثالث طلاق واقع  نہ ہونے کا فیصلہ کرے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: فيقع بلا نية؛ للعرف) أي فيكون صريحاً لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن؛ لأن الصريح قد يقع به البائن، كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحاً؛ لأنه صار فاشياً في العرف في استعماله في الطلاق، لايعرفون من صيغ الطلاق غيره، ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفاً إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك، فوجب اعتباره صريحاً، كما أفتى المتأخرون في "أنت علي حرام" بأنه طلاق بائن؛ للعرف بلا نية، مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية."

 (در مع الرد،كتاب الطلاق،3/ 252،ط:سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"والأوجه عندي أن يقع بائنا كما في فتح القدير، وفي المعراج، والأصل الذي عليه الفتوى في الطلاق بالفارسية أنه إن كان فيه لفظ لا يستعمل إلا في الطلاق فذلك اللفظ صريح يقع بلا نية إذا أضيف إلى المرأة مثل زن رها كردم في عرف أهل خراسان، والعراق بهيم لأن الصريح لا يختلف باختلاف اللغات وما كان بالفارسية يستعمل في الطلاق وغيره فهو من كنايات الفارسية فحكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام."

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري،کتاب الطلاق، 3/ 323)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أنت حرة۔۔۔۔۔۔يقع الطلاق وإن قال لم أنو الطلاق لا يصدق قضاء."

 الفتاوى الهندية،کتاب الطلاق، 1/ 375)

احسن  الفتاوی میں ہے:

"(3) میں نے آزاد کردیا

تیسرا جملہ صریح بائن ہے ،لہذا اس سے طلاق کی نیت نہ ہو توصرف  تیسرے  جملہ سے ایک طلاق بائن ہوگی."

(احسن الفتاوی،كتاب الطلاق،  5/202،ط:سعيد)

         اعلاء السنن میں ہے:

"البینة علی المدعي و الیمین علی من أنکر  .... هذا الحدیث قاعدۃ کبیرۃ من قواعد الشرع."

(15/ 350، کتاب الدعویٰ، ط: إدارۃ القرآن)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويصح التحكيم فيما يملكان فعل ذلك بأنفسهما وهو حقوق العباد و لايصح فيما لايملكان فعل ذلك بأنفسهما، وهو حقوق الله تعالى حتى يجوز التحكيم في الأموال والطلاق والعتاق والنكاح والقصاص وتضمين السرقة."

(3/397، الباب الرابع والعشرون فی التحکیم، ط؛ رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100437

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں