بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لفظِ تلاق سے طلاق کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:اگر کوئی شخص  اپنی  بیوی   کوڈرانے کی نیت سے شدید غصے کی حالت میں  تین طلاقیں دے ،اس حال میں کہ  حروفِ طلاق جان بوجھ کر  صحیح ادا نہ کرے ،مثلا"ط"کی جگہ "ت" ادا کرے اور "ق"کی جگہ "ک" ادا کرے (تلاک،بولے ڈرانے کی نیت سے )تو کیا اس طرح  مذکورہ شخص کی بیوی کو طلاق ہو گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص نے بیوی کو ڈرانے کے لیے غصے کی حالت میں جان بوجھ کر  تین مرتبہ لفظِ"تلاک" اس طرح ادا کیا ہو"کہ میں نے تمہیں "تلاک"دی یا میں تمہیں  "تلاک" دیتا ہوں  تو  چوں کہ یہ الفاظ مصحفہ میں سے ہے، لہذاان الفاظ سے بھی  مذکورہ شخص کی بیوی پر  تین طلاقیں واقع ہو  کر مذکورہ شخص کی بیوی اس پر حرمتِ مغلظہ   کے ساتھ حرام ہو چکی ہے  ،اور نکاح ختم ہو چکا ہے ،عورت کو ا ختیار ہے کہ  اپنی عدت(اگر حاملہ سے تو وضع حمل ،ورنہ پوری  تین ماہواریوں )کے بعد جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے ۔

قرآنِ مجید میں ہے:

"فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ."(سورة البقرة:230)

"ترجمہ:پھر اگر اس عورت کو طلاق دی یعنی تیسری بار تو اب حلال نہیں اس کو وہ عورت اس کے بعد جب تک نکاح نہ کرے کسی خاوند سے."

فتاوی شامی میں ہے:
"باب الصریح: صریحہ ما کم یستعمل الا فیہ۔۔۔۔۔۔و یدخل نحو طلاغ، و تلاغ و طلاک تلاک او "ط ل ق" او "طلاق باش" بلا فرق بین عالم و جاھل، و ان قال: تعمدتہ تخویفا، لم یصدق قضاء، الا إذا اشھد علیہ قبلہ، بہ یفتی قال فی البحر؛ و منہ الالفاظ المصحفة، و ھی خمسة فزاد علی ماھنا"تلاق".

(کتاب الطلاق،مطلب فی الفاظ المصحفة،249/3، ط: سعید)

مجمع الانہر میں ہے :

"وفي المنية يدخل نحو " وسوبيا ‌طلاغ، أو تلاع، أو تلاغ أو طلاك " بلا فرق بين الجاهل والعالم على ما قال الفضلي، وإن قال: تعمدته تخويفها لا يصدق قضاء إلا بالإشهاد عليه، وكذا أنت " ط ل اق "، أو " طلاق باش "، أو " طلاق شو " كما في الخلاصة ولم يشترط علم الزوج معناه فلو لقنه الطلاق بالعربية فطلقها بلا علم به وقع قضاء كما في الظهيرية والمنية."

(كتاب الطلاق، باب ايقاع الطلاق،ج:1،ص:386،ط:داراحياءالتراث)

مبسوط للسرخسی میں ہے :

"قال): وإذا قالت المرأة لزوجها: إن طلقتني ثلاثا فلك علي ألف درهم، فقال: نعم سأطلقك، فلا شيء له حتى يفعل؛ لأنها التزمت المال بمقابلة الإيقاع ‌دون ‌الوعد."

(كتابالطلاق،باب الخلع،ج:1،ص:184،ط:دار المعرفة)

فتاوی عالمگیری میں ہے :

"وإذا قال لامرأته أنت طالق وطالق ‌ولم ‌يعلقه ‌بالشرط إن كانت مدخولة طلقت ثلاثا."

(كتاب الطلاق،الفصل الاول في الطلاق الصريح،ج:1،ص:355،ط؛رشيديه)

فتاوی محمودیہ میں  ہے :

سوال (6081) زید نے بیوی کو ایک پرچہ پر لکھا جس میں یہ لکھا:"میں تم کو" تلاخ"دے چکا"بالتاء والخاء۔اور یہ لفظ کئی جگہ لکھا،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طلاق ہوئی یا نہیں ؟اور وقوع کی صورت میں کون سی طلاق واقع ہوئی بائن یا رجعی؟

الجواب حامدا ومصلیا:

اگر شوہر  نے ایسا پرچہ لکھ کر بیوی کے پاس بھیجا اور اس کو اپنی تحریر کا اقرار ہے ،یا اس پر شرعی شہادت موجود ہے اور اس میں تین مرتبہ طلاق(تلاخ)ہے تو بلا شبہ  طلاقِ مغلظہ ہو گئی ،صریح الفاظ میں نیت کی ضرورت نہیں ۔

علامه شامي نے تصریح فرمائی؛‌‌"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسة (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) بالتشديد قيد بخطابها لانه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الاضافة إليها (ويقع بها) أي بهذه الالفاظوما بمعناها من الصريح،ويدخل نحو طلاغ وتلاغ ‌وطلاك وتلاك أو ط ل ."(حررہ،العبد محمود غفرلہ،دارالعلوم دیوبند)

(کتاب الطلاق،ج:12 ،ص:329،ط:ادارۃ الفاروق کراچی)

فتاوی دارالعلوم حقانیۃ میں ہے:

"طلاق کے معاملہ میں اگر فا یا لام کے کلمات کو کچھ تبدیل کردیا جائے اور لام کا کلمہ اپنی حالت پر رہے تو اس سے قضاء طلاق واقع ہوجاتی ہے، اسی طرح صورت مسؤلہ میں تلاق کے لفظ سے طلاق واقع ہوگئی."

(کتاب الطلاق،ج:4، ص586،ط:جامعہ دارالعلوم اکوڑہ خٹک)

فقظ واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102091

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں