بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ربیع الاول 1446ھ 12 ستمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

لڈو کھیلنا شرعاً کیسا ہے؟


سوال

کیا لڈوکھیلنا حرام ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے ایسے کھیلوں کی حوصلہ افزائی کی ہے جن میں کوئی جسمانی ورز ش ہوجیسے:تیراکی،تیراندازی ،اور ایسے کھیلوں کی حوصلہ شکنی ہےجن میں انسان کے قیمتی وقت کا ضیاع ہوتاہے،اور دینی و دنیوی کوئی فائدہ نہ ہواورنہ ہی کوئی جسمانی ورزش  ہو ، ایسے کھیلوں کو ممنوع قرار دیا ہے، جن میں گناہوں کا ارتکاب لازم آتاہے،یا وہ فاسقوں اور فاجروں کے کھیل ہیں۔
صورتِ مسئولہ میں لڈو گیم ایساکھیل ہے کہ اس میں اگر شرط نہ بھی لگائی جاۓ اور دیگر گناہ کے ارتکاب نہ بھی ہو تب بھی اس میں جسمانی ورزش نہیں ہےاور اس میں بندہ اس قدر مشغول ہوتاہےکہ دینی امور میں غفلت ہوجاتی ہے،جیسے اللہ تعالی کی یاد سے،فکرِ آخرت سے،نماز سے غفلت،بلکہ بعض اوقات ترکِ نماز تک نوبت پہنچ جاتی ہے،تو ایسے لایعنی اور لغو کاموں میں ا س قدر مشغول ہوجانا شرعاًسخت ناپسندیدہ ہے،مسلمان کا دل و دماغ ہر وقت یادِ خدا اور فکرِ آخرت میں مشغول ہونا چاہیے اور قیمتی اوقات کو با مقصد کاموں میں لگانا چاہیے،جس میں دینی اور دنیاوی یا کم از کم دنیوی فائدہ ہو،لہذا ایسے بے مقصد او رلا یعنی کھیلوں سے بہر صورت اجتناب کرنا ضروری ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) كره (كل لهو) لقوله عليه الصلاة والسلام :كل لهو المسلم حرام إلا ثلاثة ملاعبته أهله وتأديبه لفرسه ومناضلته بقوسه."

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،395/6،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510102337

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں