بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لاچار سالی کے ساتھ نکاح کرکے احسان کرنے کا حکم


سوال

ہمارے ایک قریبی دوست ہیں ان کی سالی کی دو بیٹیاں ہیں اور ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہو چکی ہے،  چوں کہ دو بیٹیاں بھی ہیں تو مناسب رشتہ نہیں مل رہا،  چونکہ دنیا میں صرف دو بہنیں ہیں تو اس کا کوئی گھر بھی نہیں ہے، اب بجائے اس کے کہ وہ لڑکی کوئی گناہ کرتی رہے اور بیٹیوں کے اخراجات کا مناسب انتظام بھی نہ ہو تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے بہنوئی سے شادی کر لے، جیسا کہ اسلام میں حرام ہے تو اگر وہ آپریشن سے بچہ دانی ضائع کر دے تاکہ مزید اولاد نہ ہو سکے تو کیا اس صورت میں یہ شادی جائز یعنی اپنی بڑی یا چھوٹی بہن کی سوتن بن جائے (کیونکہ مجھے نہیں معلوم کہ اس دوست کی بیوی اس بہن سے چھوٹی ہے یا بڑی، دونوں صورتوں میں رہنمائی فرما دیں) یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ میرے دوست اور اس کی سالی کے مابین حرام تعلقات کا خدشہ بھی ہے،  تو اگر اوپر دی گئی وضاحت کے مطابق یہ شادی ہو جاتی ہے تو جیسا کہ اولاد نہیں ہو سکے گی دوسرے بہن سے تو کیا اس صورت میں جائز ہے؟ اور قرآن کی آیت کے مفہوم پر یوں عمل کر لیں کہ دونوں بہنیں رات کے وقت ایک ساتھ نہ ہوں بلکہ الگ الگ کمرے ہوں اور تمام حقوق دونوں کے لیئے برابر ہوں۔

جواب

 کسی بھی مسلمان کے لیے بیک وقت دو حقیقی بہنوں کو  نکاح میں جمع کرنا ہرگز جائز نہیں، ایک بہن کے نکاح میں ہوتے ہوئے اس کی بہن سے نکاح کرنا قطعاً حرام ہے،  قرآنِ مجید میں ہے:

وأن تجمعوا بين الأختين إلا ما قد سلف إن الله كان غفورا رحيم.

ترجمہ: اور یہ کہ (حرام ہیں تم پر کہ ) تم دو بہنوں کو (رضاعی ہوں یا نسبی) ایک ساتھ رکھو، لیکن جو  (قرآن  کا حکم آنے سے) پہلے ہوچکا۔

(سورۃ النساء، رقم الآیۃ:23، ترجمہ:بیان القرآن)

 صورتِ مسئولہ میں اگر سالی لاچار اور بے گھر ہے، تو اس کے ساتھ احسان کا معاملہ کرتے ہوئےکوئی اچھا سا رشتہ تلاش کرکے شرعی طریقہ سے رخصت کیا جائےیا کوئی علیحدہ گھر کا بندوبست کیا جائے تو عنداللہ ثواب بھی ہوگا، اس کو اپنے گھر میں رکھ کر ناجائز تعلق بنانا یا آپریشن کے ذریعےبچہ دانی نکال کرپہلی بہن کی موجودگی میں اس کے ساتھ نکاح کرنا گناہ پر گناہ ہے، یہ اس کے ساتھ احسان روی کا معاملہ ہونے کے بجائے اپنے ساتھ اس کو بھی گناہ میں مبتلاء کرنا ہے، نیز ایک بہن کے نکاح میں ہوتے ہوئے دوسری بہن سے نکاح کرنا ہی باطل ہے، وہ منعقد ہی نہیں ہوتا۔

الجامع لاحکام القرآن (تفسير القرطبي ) میں ہے:

"قوله تعالى: (وأن تجمعوا بين الأختين) موضع (فإن) رفع على العطف على (حرمت عليكم أمهاتكم). والأختان لفظ يعم الجميع بنكاح وبملك يمين. وأجمعت الأمة على منع جمعهما في عقد واحد من النكاح لهذه الآية، وقوله عليه السلام: (لا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن)".

(سورۃ النساء، رقم الآیۃ:23، ج:5، ص:116، ط:دارالفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما الجمع بين ذوات الأرحام) فإنه لا يجمع بين أختين بنكاح ولا بوطء بملك يمين سواء كانتا أختين من النسب أو من الرضاع، هكذا في السراج الوهاج."

(كتاب النكاح، الباب الثالث فى بيان المحرمات، القسم الرابع المحرمات بالجمع، ج:1، ص:277، ط:مكتبه رشيديه)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"الجمع بينهن حرام؛ لإفضائه إلى قطع الرحم لوقوع التشاجر عادة بين الضرتين، والدليل على اعتباره ما ثبت في الحديث برواية الطبراني، وهو قوله: - صلى الله عليه وسلم - «فإنكم إذا فعلتم ذلك قطعتم أرحامكم» وتمامه في الفتح".

(کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، ج:3، ص:39، ط:ایچ ایم سعید)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144507100619

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں