بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لاعلمی میں طلاق نامہ پر دستخط کرنے کا حکم


سوال

میں اور میری اہلیہ اپنے بیٹے کے پاس کینیڈا گئے ہوئے تھے، تو میرے بیٹے نے میری اہلیہ (اپنی ماں) پر تشدد کیا اور مارپیٹ کی، پھر میری اہلیہ اپنی بیٹی کے گھر چلی گئی تھی، پھر میرا  بیٹا میرے پاس ایک پیپر لے کر آیا اور مجھ سے کہا کہ اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، تو اپ اس پر دستخط کریں، میں ایک 83 سال کا بوڑھا آدمی ہوں، میں نے مجبوراً اپنے بیٹے کے ساتھ رہنے کےلیے اس پر دستخط کردیے اور اس کو پڑھا بھی نہیں، پھر دستخط کے بعد میرے بیٹے نے مجھے بتایا کہ یہ طلاق نامہ ہے اور اب آپ کی طلاق ہوگئی ہے، تو میں نے کہا کہ یہ تو آپ نے مجھ سے میری مرضی کے بغیر دستخط کروائے ہیں۔

اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟ کیوں کہ میں نے دباؤ میں آکر دستخط کیے تھے اور ا س وقت میں نے اس پیپر کو پڑھا بھی نہیں تھا اور نہ ہی مجھے معلوم تھا کہ یہ طلاق نامہ ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کا بیان واقعۃً درست ہے کہ اس نے طلاق کے پیپر پر دستخط کرتے وقت اسے پڑھا بھی نہیں تھا اور نہ ہی اسے  یہ معلوم تھا کہ یہ طلاق نامہ ہے، تو صرف دستخط کرنے سے اس  کی بیوی پر  کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، نکاح بدستور برقرار ہے۔

رد المحتار میں ہے:

"ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابة أو قال للرجل: ابعث به إليها، أو قال له: اكتب نسخة وابعث بها إليها، وإن لم يقر أنه كتابه ولم تقم بينة لكنه وصف الأمر على وجهه لا تطلق قضاء ولا ديانة، وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه اهـ."

(كتاب الطلاق، ج:3، ص:246، ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وكذا التكلم بالطلاق ليس بشرط فيقع ‌الطلاق ‌بالكتابة المستبينة وبالإشارة المفهومة من الأخرس لأن الكتابة المستبينة تقوم مقام اللفظ والإشارة المفهومة تقوم مقام العبارة."

(کتاب الطلاق، ج:3، ص:100، دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102056

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں