بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

لاپتہ شخص زندہ شمار ہوگا یا مردہ؟


سوال

ایک شخص 28 سال سے لاپتہ ہے، بہت ڈھونڈا لیکن اب تک اس کا کچھ معلوم نہ ہوسکا، ایسے شخص کو زندہ شمار کیا جائے گا یا مردہ؟

جواب

صورت مسئولہ  میں مذکورہ لاپتہ شخص کی عمر جب تک ساٹھ سال نہیں ہوجاتی، اس وقت تک انتظار کیا جائے، ساٹھ سال عمر ہوجانے کی صورت میں بذریعہ عدالت اس کی موت کا فیصلہ کرالیا جائے، عدالتی فیصلہ کے بعد اسے مردہ شمار کیا جائے گا،پس اگر وہ شادی شدہ تھا تو اس کی موت کے  فیصلہ کے بعد  اس کی بیوی بیوہ قرار پائے گی، اور 130 دن عدت ِ وفات کے طور پر گزارے گی،  عدت کی تکمیل کے بعد اس کی بیوہ کے لئے کسی اور شخص سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔

نیز جب تک لاپتہ شخص (مفقود) کی موت کا یقینی علم نہ ہو جائے، یا بذریعہ عدالت اس کی موت کا فیصلہ نہ کرالیا جائے،  اس وقت تک اس کا مال اس کے ورثاء میں تقسیم نہیں کیا جائے  گا، بلکہ بذریعہ عدالت موت کا فیصلہ ہوجانے کے بعد اس وقت  موجود ورثاء میں حصص شرعیہ کے تناسب سے  تقسیم کیا جائے گا، نیز گمشدگی کے زمانے میں مذکورہ لاپتہ شخص کے والدین کا اگر انتقال ہوا ہو تو یہ مفقود شخص ان کی میراث کا حقدار نہ ہوگا بلکہ والدین کی میراث ان شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگی جو والدین کے انتقال کے وقت زندہ اور موجود تھے۔

فتح القدير لكمال بن الهمام میں ہے: 

"قال المصنف:( والأرفق ) أي بالناس ( أن يقدر بتسعين ) وأرفق منه التقدير بستين .

وعندي الأحسن سبعون لقوله صلى الله عليه وسلم:{ أعمار أمتي ما بين الستين إلى السبعين } فكانت المنتهى غالباً، وقال بعضهم : يفوض إلى رأي القاضي ، فأي وقت رأى المصلحة حكم بموته واعتدت امرأته عدة الوفاة من وقت الحكم للوفاة كأنه مات فيه معاينة ، إذ الحكمي معتبر بالحقيقي (قوله ومن مات منهم) أي ممن يرث المفقود (قبل ذلك) أي قبل أن يحكم بموت المفقود (لم يرث من المفقود) بناء على الحكم بموته قبل موت المفقود فتجري مناسخة فترث ورثته من المفقود (لأنه لم يحكم بموت المفقود بعد) وحين مات هذا كان المفقود محكوما بحياته كما إذا كانت حياته معلومة (ولا يرث المفقود أحدا مات في حال فقده لأن بقاءه حيا في ذلك الوقت) يعني وقت موت ذلك الأحد (باستصحاب الحال وهو لا يصلح حجة في الاستحقاق) بل في دفع الاستحقاق عليه ولذا جعلناه حيا في حق نفسه فلا يورث ماله في حال فقده ميتا في حق غيره فلا يرث هو غيره".

( كتاب المفقود، ٦ / ١٤٩، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا حكم بموته اعتدت امرأته عدة الوفاة من ذلك الوقت وقسم ماله بين ورثته الموجودين في ذلك الوقت ومن مات قبل ذلك لم يرث منه، كذا في الهداية... ويعتبر ميتا في ماله يوم تمت المدة، وفي مال الغير يعتبر كأنه مات يوم فقده، كذا في التتارخانية

ولا يرث المفقود أحدا مات في حال فقده، ومعنى قولنا " لا يرث المفقود أحدا " أن نصيب المفقود من الميراث لا يصير ملكا للمفقود... الخ" 

( كتاب المفقود، ٢ / ٣٠٠، ط: دار الفكر)۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100840

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں