میں شادی شدہ ہوں ، تیس (30) سال سے اپنی امی کے گھر بیٹھی ہوں، میرے دو بچے ہیں، ان کی کفالت میری ذمہ داری ہے ۔
میرے شوہر گھر سے یہ کہہ کے نکلے تھے کہ میں باہر جا رہا ہوں، تیس (30) سال ہوئے کوئی پتہ نہیں ، میرا شوہر کہاں ہے ؟
شریعت کے لحاظ سے کیا میں اب بھی ان کے نکاح میں ہوں یا نہیں؟
میری امی بھی انتقال کر گئی ہیں، میرا نکاح اگر ختم ہو گیا ہے، تو میں قانونی طور پر امی کی پینشن کی حق دار بن سکتی ہوں؟ برائے مہربانی میرے نکاح کی بابت راہ نمائی فرمائیں۔
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائلہ کا بیان درست ہے کہ اس کا شوہر تیس سال سے لاپتہ ہے ، اس کے زندہ یا مردہ ہونے کی کوئی خبر نہیں ہے ، تو ایسی صورت میں اپنے شوہر کے نکاح سے آزاد ہونے اور نکاح کو ختم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سائلہ کسی مسلمان جج کی عدالت میں پیش ہو کر شوہر کے مفقود الخبر ہونے کی بنیاد پر فسخ نکاح کا مقدمہ دائر کرے، جس میں اولاً گواہوں سے مفقود کے ساتھ تاحال قیام نکاح کو گواہوں کے ذریعہ ثابت کرے ، نیز نکاح کے اصلی گواہ عدالت میں پیش کرنا ضروری نہیں، بلکہ شہادت بالتسامع کافی ہے یعنی نکاح کی عام شہرت سن کر گواہی دی جاسکتی ہے، اس کے بعد شوہر کے مفقود ہونے پر گواہ پیش کرے ،بعد ازاں عدالت اپنے طور پر شوہر کی تلاش کے لیے تحقیق کرے گی ، جہاں تک ممکن ہوتلاش کیا جائے، جس جگہ اس کے موجود گی کا ظن غالب ہو وہاں آدمی بھیجے اور جہاں احتمال ہو خط وغیرہ سے تحقیق کرے اخبارات وغیرہ میں اشتہار کے ذریعےبھی اس کی تلاش کی کوشش کی جائے گی ، اگر سائلہ کے نفقہ کا انتظام ہو، تو عدالت مزید چار سال شوہر کے انتظار کا حکم دے، البتہ اگر سائلہ کے نفقہ کا بندوبست نہ ہو، تو مزید ایک ماہ انتظار کرنے کا حکم دے، اور اگر نفقہ کا انتظام تو ہو، لیکن شوہر کے بغیر عفت و پاک دامنی کے ساتھ رہنا مشکل ہو تو مزید ایک سال انتظار کا حکم دے، انتظار کی مدت گزرنے پر بھی اگر شوہر نہ آئے اور نہ ہی اس کے بارے میں کوئی خبر ملے تو عدالت فسخِ نکاح کا فیصلہ کردے۔
پہلی صورت میں سائلہ عدت وفات ( یعنی 130 دن) عدت گزارے گی، جب کہ آخری دو صورتوں میں عدت طلاق ( یعنی مکمل تین ماہواریاں اگر ماہواری آتی ہو، اور ماہواری نہ آتی ہو تو تین ماہ) گزارنے کے بعد اپنے شوہر کے نکاح سے آزاد ہوجائے گی۔
پس جب تک مذکورہ بالا طریقہ پر عمل کرتے ہوئے نکاح فسخ نہ کرا لے، اس وقت تک سائلہ اپنے شوہر کے نکاح میں رہے گی، اور پینشن کے قانون کے مطابق والدہ کی پینشن وصول کرنے کی اہل نہ ہوگی۔
احسن الفتاوی میں ہے:
"زوجۂ مفقود سے متعلق ترمیم جو مشورہ کے بعد طے ہوئی:
ہم دستخط کنندگان ذیل کے نزدیک مناسب یہ ہے کہ حیلۂ ناجزہ ص:61 میں بعنوان "فائدہ" جو الفاظ لکھے گئے ہیں ان کو مندرجۂ ذیل الفاظ میں تبدیل کر دیا جائے:
فائدہ: زوجۂ مفقود کے لیے قاضی کی عدالت میں فسخِ نکاح کی درخواست کے بعد جو مزید چار سال کے انتظار کاحکم دیا گیا ہے یہ اس صورت میں ہے کہ جب عورت کے لیے نفقہ اور گزارہ کا بھی کچھ انتظام ہو اور عصمت و عفت کے ساتھ یہ مدت گزارنے پر قدرت بھی ہو، اور اگر اس کے نفقہ اور گزارہ کا کوئی انتظام نہ ہو نہ شوہر کے مال سے نہ کسی عزیز و قریب یا حکومت کے تکفل سے خود بھی محنت و مزدوری پردہ اور عفت کے ساتھ کر کے اپنا گزارہ نہیں کر سکتی ، تو جب تک صبر کر سکے شوہر کا انتظار کرے جس کی مدت ایک ماہ سے کم نہ ہو، اس کے بعد قاضی یا کسی مسلمان حاکم مجاز کی عدالت میں فسخِ نکاح کا دعوی دائر کرے۔ اور اگر نفقہ اور گزارہ کا تو انتظام ہے مگر بغیر شوہر کے رہنے میں اپنی عفت و عصمت کا اندیشہ قوی ہے تو سال بھر صبر کرنے کے بعد قاضی کی طرف مرافعہ کرے اور دونوں صورتوں میں گواہوں کے ذریعے یہ ثابت کرے کہ اس کا شوہر فلاں اتنی مدت سےغائب ہے اور اس نے اس کے لیے کوئی نان نفقہ نہیں چھوڑا ، اور نہ کسی کو نفقہ کا ضامن بنایا اور اس نے اپنا نفقہ اس کو معاف بھی نہیں کیا، اور اس پر عورت حلف بھی کرے اور دوسری صورت یعنی عفت کے خطرہ کی حالت میں قسم کھائے کہ میں بغیر شوہر کے اپنی عفت قائم نہیں رکھ سکتی، قاضی کے پاس جب یہ ثبوت مکمل ہوجائے تو قاضی اس کو کہہ دے کہ میں نے تمہارانکاح فسخ کر دیا، یا شوہر کی طرف سے طلاق دے دی یا خود عورت کو اختیار دے دے کہ وہ اپنے نفس پر طلاق واقع کرے اور جب عورت طلاق اپنے نفس پر واقع کرے تو قاضی اس طلاق کو نافذ کر دے۔(کما فی فتوی العلامۃ الفاہاشم من الالحاق حیلۂ ناجزہ)"
(باب خيار الفسخ، ٥ / ٤٢١ - ٤٢٢، ط:ایچ ایم سعید)
رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:
"مطلب في الإفتاء بمذهب مالك في زوجة المفقود"
"(قوله: خلافا لمالك) فإن عنده تعتد زوجة المفقود عدة الوفاة بعد مضي أربع سنين، وهو مذهب الشافعي القديم وأما الميراث فمذهبهما كمذهبنا في التقدير بتسعين سنة، أو الرجوع إلى رأي الحاكم. وعند أحمد إن كان يغلب على حاله الهلاك كمن فقد بين الصفين أو في مركب قد انكسر أو خرج لحاجة قريبة فلم يرجع ولم يعلم خبره فهذا بعد أربع سنين يقسم ماله وتعتد زوجته، بخلاف ما إذا لم يغلب عليه الهلاك كالمسافر لتجارة أو لسياحة فإنه يفوض للحاكم في رواية عنه، وفي أخرى يقدر بتسعين من مولده كما في شرح ابن الشحنة، لكنه اعترض على الناظم بأنه لا حاجة للحنفي إلى ذلك أي؛ لأن ذلك خلاف مذهبنا فحذفه أولى. وقال في الدر المنتقى: ليس بأولى، لقول القهستاني: لو أفتى به في موضع الضرورة لا بأس به على ما أظن اهـ
قلت: ونظير هذه المسألة عدة ممتدة الطهر التي بلغت برؤية الدم ثلاثة أيام ثم امتد طهرها فإنها تبقى في العدة إلى أن تحيض ثلاث حيض. وعند مالك تنقضي عدتها بتسعة أشهر. وقد قال في البزازية: الفتوى في زماننا على قول مالك."
(كتاب المفقود، ٤ / ٢٩٥ - ٢٩٦، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101379
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن