بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لاعلمی میں بیوی سے حالت حیض میں ہمبستری کرنا


سوال

بیوی کے ساتھ تعلق قائم کرنے کے بعد یہ پتہ چلا کہ مخصوص ایام شروع ہو چکے ہیں، تو ایسی صورت میں دونوں کے لیے کیا حکم ہے؟ جب کہ تعلق قائم کرتے وقت دونوں اس بات سے لاعلم ہوں۔

جواب

واضح رہے کہ حالتِ حیض میں بیوی سے جماع کرنا شرعاً ناجائز و حرام ہے،جس پر سچے دل سے توبہ و استغفار  ضروری ہے،نیز یہ طبی اعتبار سے بھی انتہائی نقصان دہ ہے ،لہذا اس سے اجتناب لازم ہے۔ 

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ شوہر اور بیوی کو ماہواری کا علم نہیں تھا اور شوہرنے ہمبستری کر لی تو اس میں دونوں گناہ گار نہ ہوں گےاور اگر  علم ہونے کے باجود انہوں نے ایسا کیا ہے تو  اس سے وہ   گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے ہیں ،لہذا  اس پر اُنہیں  سچے دل سے توبہ و استغفار اور آ ئندہ کے لیے مکمل اجتناب ضروری  ہے، نیز مذکورہ گناہ کے ازالے کے لیے بہتر یہ  ہے کہ  کچھ صدقہ کرے، تاکہ نیکی سے گناہ دُھل جائے،  استطاعت ہو تو ایک دینار ( یعنی  4.374گرام سونا یا اس کی قیمت، اگر ایام کا خون سرخ ہو) یا آدھا دینار (یعنی  2.187  گرام سونا یا اس کی قیمت، جب کہ خون سرخ رنگ کے علاوہ ہو)  صدقہ کریں۔   ملحوظ رہےکہ مذکورہ صورت میں ایک دینار یا آدھے دینار کا صدقہ کرنا واجب نہیں ہے،اگر استطاعت نہ ہو تو  جس قدر ممکن ہو اتنا صدقہ کردیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويندب تصدقه بدينار أو نصفه. (قوله: ويندب إلخ) لما رواه أحمد وأبو داود والترمذي والنسائي عن ابن عباس مرفوعًا «في الذي يأتي امرأته وهي حائض، قال: يتصدق بدينار أو نصف دينار» ثم قيل إن كان الوطء في أول الحيض فبدينار أو آخره فبنصفه، وقيل بدينار لو الدم أسود وبنصفه لو أصفر. قال في البحر: ويدل له ما رواه أبو داود والحاكم وصححه «إذا واقع الرجل أهله وهي حائض، إن كان دما أحمر فليتصدق بدينار، وإن كان أصفر فليتصدق بنصف دينار»."

(كتاب الطهارة، باب الحيض،٢٩٨/١، ط: سعيد)

الموسوعة الفقهية الكويتية"  میں ہے:

"النسيان في فعل منهي عنه ليس فيه إتلاف: النسيان في فعل منهي عنه ليس من باب الإتلاف له صور منها:‌‌ أ - وطء الرجل امرأته الحائض نسيانا: 25 - ذهب الحنفية إلى أن وطء الحائض كبيرة إن كان عامدا مختارا عالما بالحرمة، لا جاهلا أو مكرها أو ناسيا، فتلزمه التوبة، ‌ويندب ‌تصدقه ‌بدينار ‌أو ‌نصفه، ومصرفه كزكاة، وهل على المرأة تصدق؟ قال في الضياء: الظاهر لا (2) وقال الشافعية: وطء الحائض في الفرج كبيرة من العامد العالم بالتحريم المختار، ويكفر مستحله، بخلاف الجاهل والناسي والمكره".

(‌‌أقسام النسيان‌‌،القسم الثاني،٢٧٨/٤٠،ط : وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)

المجموع شرح المہذب میں ہے:

"وأما ‌إذا ‌وطئها ‌عالما ‌بالحيض وتحريمه مختارا ففيه قولان الصحيح الجديد لا يلزمه كفارة بل يعذر ويستغفر الله تعالى ويتوب ويستحب أن يكفر الكفارة التي يوجبها القديم والثاني وهو القديم يلزمه الكفارة وذكر المصنف دليلهما والكفارة الواجبة في القديم دينار إن كان الجماع في إقبال الدم ونصف دينار إن كان في إدباره والمراد بإقبال الدم زمن قوته واشتداده وبإدباره ضعفه وقربه من الانقطاع هذا هو المشهور الذي قطع به الجمهور وحكى الفوراني".

(كتاب الحيض،٣٥٩/٢،ط : إدارة الطباعة المنيرية)

فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں ہے:

"(سوال ۳۳۷) اگر کوئی شخص اپنی زوجہ سے حالتِ حیض میں جماع کرے تو اس پر کفارہ لازم آوے گا یا نہ؟(جواب)در مختار میں ہے کہ حالتِ حیض میں اپنی زوجہ سے وطی کرنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے، اس کو توبہ کرنا لازم ہے اور ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرنا مستحب ہے، اور ایک دینار ساڑھے چار ماشے سونے کا ہوتا ہے ۔"

(کتاب الحیض،211/1، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101463

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں