بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لاعلمی میں کسی محرم سے نکاح ہوجائے تو عدت اورالاد کا حکم


سوال

ایک جگہ مرد اورعورت کا نکاح ہوجائے لاعلمی میں ،اوربعدمیں ایک اولاد ہونے کے بعد پتہ چل جائے کہ وہ دونوں محرم ہیں ، توکیااس عورت پر عدت گزارنالازم ہے ؟ اگرنہیں ہے توکیااس کا محرم ہونامعلوم ہونے کے بعد عورت کی رضامندی سے فوراً کسی دوسرے سے نکاح کراناجائز ہے ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگرواقعۃ ً مذکورہ مرد اورعورت کا لاعلمی میں   آپس میں نکاح ہوا،اور ان کومحرمیت  کا علم نہیں تھاتو یہ نکاح فاسد ہواہے،اور بچہ کا نسب اپنے حقیقی والد سے ثابت ہے، اب چوں کہ محرمیت کاعلم ہوگیاہے تودونوں پرلازم ہے کہ فوراً علیحدہ ہوجائیں ،اورمرد  پر لازم ہے کہ وہ زبان سے بھی کہہ دے کہ اس نے بیوی کوچھوڑدیاہے ، اوراب تک ساتھ رہنے پردونوں توبہ واستغفاربھی کریں،اور عورت پر عدت بھی لازم ہے ،  عدت گزار کر  دوسری جگہ نکاح کرناجائزہوگا ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(وعدة المنكوحة نكاحا فاسدا) فلا عدة في باطل وكذا موقوف قبل الإجازة اختيار، لكن الصواب ثبوت العدة والنسب بحر 

(قوله: وعدة المنكوحة إلخ) مبتدأ خبره قوله: الآتي الحيض، وهذه الجملة بتمامها مستغنى عنها بقوله سابقا كذا أم ولد مات عنها مولاها، أو أعتقها وموطوءة بشبهة أو نكاح فاسد في الموت والفرقة ط. على أن كلامه هنا يوهم وجوب العدة في النكاح الفاسد ولو قبل الوطء وليس كذلك، فإنها لا تجب فيه بالخلوة بل بالوطء في القبل كما مر في باب المهر (قوله: نكاحا فاسدا) هي المنكوحة بغير شهود، ونكاح امرأة الغير بلا علم بأنها متزوجة، ونكاح المحارم مع العلم بعدم الحل فاسد عنده خلافا لهما فتح. مطلب في النكاح الفاسد والباطل.

(قوله: فلا عدة في باطل) فيه أنه لا فرق بين الفاسد والباطل في النكاح، بخلاف البيع كما في نكاح الفتح والمنظومة المحبية، لكن في البحر عن المجتبى: كل نكاح اختلف العلماء في جوازه كالنكاح بلا شهود فالدخول فيه موجب للعدة، أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا، فعلى هذا يفرق بين فاسده وباطله في العدة، ولهذا يجب الحد مع العلم بالحرمة لكونها زنا كما في القنية وغيرها. اهـ.

قلت: ويشكل عليه أن نكاح المحارم مع العلم بعدم الحل فاسد كما علمت مع أنه لم يقل أحد من المسلمين بجوازه وتقدم في باب المهر أن الدخول في النكاح الفاسد موجب للعدة وثبوت النسب، ومثل له في البحر هناك بالتزوج بلا شهود وتزوج الأختين معا، أو الأخت في عدة الأخت، ونكاح المعتدة والخامسة في عدة الرابعة والأمة على الحرة. اهـ".

(کتاب الطلاق،باب العدۃ،ج:3،ص:516،سعید)

وفیہ ایضا:

"وبحرمة المصاهرة لایرتفع النکاح حتی لایحل له التزوج بآخر إلا بعد المتارکة وانقضاء العدة.

وفی الرد: النکاح لایرتفع بحرمة المصاهرة والرضاع؛ بل یفسده، (قوله) إلا بعد المتارکة أي وإن بقی علیها سنون کما في البزازیة، وعبارة الحاوي إلا بعد تفریق القاضي أو بعد المتارکة، وقد علمت أن النکاح لایرتفع؛ بل یفسد، وقد صرّحوا في النکاح الفاسد بأن المتارکة لاتتحقق إلا بالقول: إن کانت مدخولًا بها كتركتك، أو خلیت سبیلك."

 (رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب النکاح ، فصل فی المحرمات 3/ 37سعید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100618

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں