بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لاعلمی میں روزے چھوڑنے کا حکم


سوال

میں  جب نیانیا بالغ ہوا تھا، اور گھر میں کسی کو پتہ نہیں تھا تو جب  رمضان کا مہینہ آیا  تب   میں بہت  ناسمجھ بھی تھا ، چناں چہ وہ سارے روزے میں نے کھاۓ تھے، لیکن اتنا شعور نہیں تھا اب میں بہت پشیمان ہوں ،اللہ پاک سے توبہ بھی کی ہے اور کبھی اس کے بعد  روزہ کھایا بھی نہیں، لیکن اب ان روزوں کے ساتھ کیاکروں ؟

جواب

اگر کسی بالغ شخص نے کم علمی کے سبب  رمضان کے روزے نہیں رکھے ،تو اب ان روزوں کی قضاء کرنا اس کے ذمہ لازم ہے، قضا  کرلینے سے فرض ادا ہو جاۓ گا،لیکن رمضان میں روزے رکھنے کا جتنا ثواب ملتا وہ نہیں ملے گا۔

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

"جس آدمی نے عذر اور  بیماری کے بغیر رمضان کا ایک روزہ چھوڑدیا تو عمر بھر روزہ رکھنے سے بھی ایک روزے کی تلافی نہ ہوگی،اگرچہ قضا کے طور پر عمر بھر روزے بھی رکھ لے۔" 

لہذا صورت مسئولہ میں سائل نے جتنے روزے بلوغت کے بعد چھوڑے ہیں، اس پر توبہ وا ستغفار اور ان تمام روزوں کی قضا سائل پر لازم ہے۔

مشکوۃ شریف میں ہے:

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌من ‌أفطر ‌يوما ‌من ‌رمضان من غير رخصة ولا مرض لم يقض عنه صوم الدهر كله وإن صامه» . رواه أحمد والترمذي وأبو داود وابن ماجه والدارمي والبخاري."

(‌‌كتاب الصوم،‌‌باب تنزيه الصوم،‌‌الفصل الثاني،626/1،ط:المكتب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن أسلم في دار الإسلام فعليه قضاء ما مضى علم بذلك أو لم يعلم كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الصوم،الباب السابع في الاعتكاف،214/1،ط:رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409101378

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں