جو حضرات اپنی زکوۃ باہر ملک سے پاکستان بھیجتے ہیں،اور وہ آگے اپنے دوستوں یا رشتہ داروں کو اس کا امین مقرر کرتے ہیں،کیا ان کو امین مقرر کرنا درست ہے؟اگر ان کے آگے مقرر کیے گئے امین سے غیر دانستہ طور پر کسی غلط بندے کو زکوۃ چلی گئی تو اس کا کیا حکم ہے؟
زکوۃ کی ادائیگی میں بہتر یہ ہے کہ انسان اپنی زکوۃ خود مستحقین تک پہنچا دیں، اگر خود کسی عذر کی وجہ سے نہیں پہنچا سکتا تو اپنے اقارب اور جاننے والوں میں کسی معتمد دیندار شخص کو اپنا وکیل مقرر کرنا چاہیے،تاکہ وہ مکمل دیانتداری کے ساتھ ان کی زکوۃ مستحقین تک پہنچا دیں،اور وکیل کا موکل کی طرف سے زکوۃ ادا کرنے سے موکل کی زکوۃ ادا ہو جائےگی،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر وکیل نے لاعلمی میں غیر مستحق شخص کو مستحق سمجھ کر زکوۃ دے دی،تو زکوۃ ادا ہوجائےگی،البتہ اگر زکوۃ دیتے وقت اس شخص کے غیر مستحق ہونے کا علم تھا ،پھر بھی زکوۃ دے دی ،تو زکوۃ ادا نہ ہو گی ، مالک پر دوبارہ زکوۃ کی ادائیگی لازم ہو گی۔
الدرالمختار میں ہے:
"(دفع بتحر) لمن يظنه مصرفا (فبان أنه عبده أو مكاتبه أو حربي، و لو مستأمنًا أعادها) لما مر (و إن بان غناه أو كونه ذميًّا أو أنه أبوه أو ابنه أو امرأته أو هاشمي لا) يعيد، لانه أتى بما في وسعه،حتى لو دفع بلا تحر لم يجز إن أخطأ."
(کتاب الزکوۃ، باب المصرف، ص:138، ط:دار الكتب العلمية - بيروت)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إذا شك وتحرىفوقع في أكبر رأيه أنه محل الصدقة فدفع إليه أو سأل منه فدفع أو رآه في صف الفقراء فدفع فإن ظهر أنه محل الصدقة جاز بالإجماع، و كذا إن لم يظهر حاله عنده، و أما إذا ظهر أنه غني أو هاشمي أو كافر أو مولى الهاشمي أو الوالدان أو المولودون أو الزوج أو الزوجة فإنه يجوز وتسقط عنه الزكاة في قول أبي حنيفة و محمد - رحمهما الله تعالى -، و لو ظهر أنه عبده أو مدبره أو أم ولده أو مكاتبه فإنه لا يجوز عليه أن يعيدها بالإجماع، و كذا المستسعى عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - هكذا في شرح الطحاوي."
(کتاب الزکوۃ، الباب السابع في المصارف، فصل ما يوضع في بيت المال من الزكاة، ج:1، ص:189،190، ط:مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509100440
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن