بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لا علاج شخص کو انجکشن کے ذریعے مارنے کا حکم


سوال

لاعلاج بیماری میں مبتلا آدمی کو انجکشن کے ذریعے مارنے کا کیا حکم ہے ؟ مثلاً آگ میں پوری طرح جل جائے اور زندگی کی بھی کوئی امید نہ ہو یاپھرکو ئي ایسی بیماری میں مبتلا ہو   جس کے علاج سےڈاکٹر بھی عاجز آگئے ہوں؟

جواب

 زندگی اور موت کے فیصلے اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں،اس نے ہر انسان کی موت کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے ،اور مسلمان کا خون اللہ تعالیٰ کے ہاں کعبۃ اللہ سے بھی زیادہ محترم ہے،اس لیے کسی مسلمان کو بغیر کسی گناہ کے جان سے مار ڈالنا گناہ کبیرہ ہے،اور اس پر سخت وعیدیں قرآن وسنت میں وارد ہوئی ہیں ،لہٰذا کسی انسان کو اس کی بیماری کے سبب انجکشن وغیرہ کے ذریعے مارنا یہ قتل کے حکم میں  ہے،اور اگر اس مریض کے حکم سے ہو تو یہ اس کی جانب سے خود کشی کا اقدام ہے،اور دونوں صورتوں میں یہ اقدام ناجائز اور حرام ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَاباً عَظِيماً (النساء93)

"ترجمہ : اور جو کوئی قتل کرے مسلمان کو  جان کر تو اس کی سزا دوزخ ہے ،پڑا رہے گا اسی میں اور اللہ کا اس پر غضب ہوا اور اس کو لعنت کی اور اس کےواسطے تیار کیا ہےبڑا عذاب

(فائدہ ) قتل عمد کی سزا یعنی اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو غلطی سے نہیں بلکہ قصداً اور مسلمان معلوم کرنے کے بعد قتل کرے گا تو اس کے لیے آخرت میں جہنم اور لعنت اور عذابِ عظیم ہے،کفارہ سے اس کی رہائی نہیں ہوگی۔"

(تفسیر عثمانی،ج:1 ،ص:436  ، 437 ،ط: دار الاشاعت)

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا محمد بن مقاتل: أخبرنا النضر: أخبرنا شعبة: حدثنا فراس قال: سمعت الشعبي، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس."

"ترجمه: نبی كريمﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا،والدین کی نافرمانی کرنا،کسی کو(نا حق)قتل کرنااور یمین غموس کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔"

( کتاب الأیمان والنذور ،باب الیمین الغموس ،2 / 518 ط:رحمانیہ )

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

" أخبرنا معمر، عن بعض المكيين، أن عبد الله بن عمرو بن العاصي قال: أشهد أنك بيت الله، وأن الله عظم حرمتك، وأن حرمة المسلم أعظم من حرمتك."

"ترجمہ: میں گواہی دیتا ہوں تو اللہ کا گھر ہے،اور اللہ تعالیٰ نے تجھے بڑا قابل احترام بنایا ہے (لیکن)مسلمان کا احترام تیرے احترام سے (بھی) بڑھ کر ہے۔"

(کتاب الجامع،  باب الاغتیاب والشتم  11 / 178 ط: المکتب الإسلامی)

كنز العمال میں ہے:

"من ‌قتل ‌نفسه بحديدة فحديدته في يده يتوجأ  بها في بطنه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن شرب سما فقتل نفسه فهو يتحساه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن تردى من جبل فقتل نفسه فهو يتردى في نار جهنم خالدا مخلدا فيها."

"ترجمہ:جس نے اپنے آپ کو لوہے سے قتل کیا تو اس کا (وہ) لوہا اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گاجہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے،اور جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو قتل کیا تو وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیےزہر کے گھونٹ لیتا رہےگا،اور جس نے پہاڑ سے لُڑھک کر اپنے آپ کو قتل کیا تو وہ جہنم کی آگ میں (بھی )ہمیشہ کےلیےلُڑھکتا رہےگا۔"

(حرف القاف،کتاب القصاص،الباب الأول فی القصاص،الفصل الرابع ،الفرع الأول،ج:15 ،ص:36 )

شرح ِمشکاۃ "طیبی" میں ہے:

"وعن عبد الله مسعود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أول ما يقضي بين الناس يوم القيامة في الدماء.....................الحديث الثاني عن ابن عمر رضي الله عنهما: قوله: ((في فسحة)) أي سعة من دينه ترجى رحمة الله ولطفه، ولو باشر الكبائر سوى القتل، فإذا قتل ضاقت عليه ودخل في زمرة الآيسين من رحمة الله تعالي، كما ورد في حديث أبي هريرة ((من أعان علي قتل مؤمن، ولو بشطر كلمة، لقي الله مكتوب بين عينيه: آيس من رحمة الله)). وقيل: المراد ب((شطر الكلمة)) قوله: اق. وهو من باب التغليظ، ويجوز أن ينزل معنى الحديث علي معنى قوله صلى الله عليه وسلم في الفصل الثاني: ((لا يزال المؤمن معنقاً صالحاً)) أي المؤمن لا يزال موفقاً للخيرات مسارعاً إليها ((ما لم يصب دماً حراماً)) فإذا أصاب ذلك أعيي وانقطع عنه ذلك بشؤم ما ارتكب من الإثم."

(کتاب القصاص،الفصل الأول،7 /43 ، 44  إدارۃ القرآن والعلوم الإسلامیۃ باکستان)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144508101100

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں