بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

لاعلمی میں کسی دوسرے کی بیوی سے نکاح اور اس نکاح سے ہونے والی اولاد کے نسب کا حکم


سوال

تیرہ سال کی عمر میں ایک لڑکی کا نکاح  ایک شخص  سے باقاعدہ  گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کرکے کیا گیا تھا، اس کے بعد ایک بیٹا بھی ہوگیا، پھر شادی کے 3 سال بعد وہ شخص اس لڑکی کو چھوڑ کر بنگلہ دیش چلا گیا، وہاں سے فون کرکے کہا کہ میں بچے کا خرچہ تو بھیجوں گالیکن آپ کا نہیں بھیج سکتا، مگر پھر اس نے کسی کا خرچہ بھی نہیں بھیجا،اس واقعہ کے آٹھ سال بعد محلہ والوں نے اس کی شادی مجھ سے کرائی، اس شادی سے ہمارے دو بچے بھی ہوئے، اب اس لڑکے کا فون محلہ والوں کو آیا اور کہا کہ میں نے تو اسے طلاق نہیں دی تھی،میں نے بیوی سے پوچھا تو وہ کہتی ہے کہ مجھے اس کا خیال نہیں تھا،اس وجہ سے میں نے نہیں بتایا، اور نہ خود مجھے معلوم تھا کہ اس کی طلاق نہیں ہوئی اور ابھی تک یہ اسی شخص کی بیوی ہے، میں نے تو اس وجہ سے نکاح کیا تھا کہ اس کی عصمت محفوظ رہے ،اب میری شادی کو19 سال ہوگئے ہیں، میں اذیت میں ہوں، رہنمائی فرمائیں کہ میرے اس نکاح کا کیا حکم ہے؟

وہ سابقہ شوہر   اب نہ اسے ساتھ رکھنے پر تیار ہے اور نہ ہی طلاق دینے پر تیار ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ خاتون کا پہلا نکاح  چونکہ باقاعدہ گواہوں کی موجودگی  میں ایجاب و قبول  کرکے  کیا گیا تھا،اس وجہ سے وہ نکاح شرعا منعقد ہوگیا تھا، اس شخص  کی طرف سے طلاق یا خلع کے بغیر عورت کا نکاح میں رہتے ہوئے  سائل کا مذکورہ خاتون سے نکاح   شرعا منعقد نہیں ہوا تھا، لہٰذا دونوں کو فوراً علیحدگی اختیار کرلینی چاہیے، علیحدگی کے بعد دونوں پر توبہ و استغفار لازم ہے۔

باقی سائل کو  چونکہ اس بات کا علم نہیں تھا کہ  یہ خاتون کسی اور شخص کے نکاح میں ہے، لہٰذا اس نکاح سے جو اولاد ہوئی اس کا نسب سائل سے ثابت ہے۔

 مذکورہ خاتون کا شوہر اگر  واقعۃً اسے اپنے ساتھ رکھنے  یا  طلاق دینے پر راضی نہیں ہے، نیز وہ  خرچہ  وغیرہ بھی نہیں بھیجتا تو  ایسا شخص شرعاً "متعنت" کہلاتا ہے،اور   متعنت کی بیوی  کا حکم یہ ہے کہ سب سے پہلے عورت اس  شوہر سے  خلع یا طلاق حاصل  کرلے،لیکن اگر باوجود کوشش کے طلاق یا خلع کی صورت نہ بن سکے،اور عورت کے نان ونفقہ کا دوسرا کوئی انتظام بھی نہ ہو،یعنی نہ تو  کوئی شخص عورت کے نان ونفقہ کی ذمہ داری اٹھائے اور نہ وہ  خود حفظِ آبرو کے ساتھ کسبِ معاش پر قدرت رکھتی ہو،یا کسبِ معاش پر تو قدرت رکھتی ہو مگر شوہر سے علیحدہ رہنے میں گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو عورت اپنا مقدمہ مسلمان جج کی  عدالت کے سامنے پیش کرے،اورعدالت معاملہ کی شرعی شہادت کے ذریعہ پوری تحقیق کرے،اگر عورت کا دعوی صحیح ثابت ہو جائے کہ شوہر باوجود وسعت کے خرچ نہیں دیتا تو  عدالت اس کے خاوند پیغام بھیجے  کہ اپنی عورت کے حقوق ادا کرو،یا طلاق دو،ورنہ ہم تفریق کردیں گے،اس کے بعد بھی اگر وہ ظالم کسی صورت پر عمل نہ کرے تو قاضی تفریق  کردے، اور یہ تفریق  ایک طلاقِ رجعی ہوگی،  بیوی کو تین ماہواری عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے کا  اختیار ہوگا  ۔

لہذ ا سائلہ مذکورہ بالا طریقے کو اختیار کرتے ہوئے قاضی سے تنسیخِ نکاح کروائے، عدت گزارنے  کے بعد مذکورہ خاتون سائل سے یا کسی  دوسری جگہ  نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔(ملخص از حیلہ ناجزہ،ص72،ط:دارالاشاعت)

الدر مع الرد میں ہے:

"أما نکاح منکوحة الغیر…فلم یقل أحد بجوازہ، فلم ینعقد أصلاً"۔

( کتاب النکاح، باب المھر۴:۲۷۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)

 ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة، كذا في السراج الوهاج. سواء كانت العدة عن طلاق أو وفاة أو دخول في نكاح فاسد أو شبهة نكاح، كذا في البدائع. ولو تزوج بمنكوحة الغير وهو لا يعلم أنها ‌منكوحة ‌الغير فوطئها؛ تجب العدة، وإن كان يعلم أنها ‌منكوحة ‌الغير لا تجب حتى لا يحرم على الزوج وطؤها، كذا في فتاوى قاضي خان"

(كتاب النكاح،في بيان المحرمات،ج1ص346)

الدر مع الرد میں ہے:

"قوله: ( نكاحا فاسدا ) هي المنكوحة بغير شهود ونكاح امرأة الغير بلا علم بأنها متزوجة."

(مطلب في النكاح الفاسد،ج3ص516)

"قولہ:( في نكاح فاسد ) وحكم الدخول في النكاح الموقوف كالدخول في الفاسد فيسقط الحد ويثبت النسب ويجب الأقل من المسمى ومن مهر المثل."

(ردالمحتار،مطلب في النكاح الفاسد،ج4ص274)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100769

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں