زید کے والد کا انتقال کچھ عرصہ قبل ہوگیا، ورثاء میں 2 بیٹے اور 7 بیٹیاں اور ایک بیوہ ہیں ، ان کی ملکیت میں کچھ زمین ہے، مرحوم کے بھتیجے اس زمین پر گھر بنا رہے ہیں، اور یہ کہہ رہے ہیں کہ مرحوم نے ہمارے والد(اپنے بھائی) کو کہا تھا کہ ہم تمھیں بھی حصہ دیں گے ، جب کہ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ۔
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ زمین صرف زید کے والد کی مملوکہ تھی، کسی اور کا اس میں حق وحصہ نہیں تھا، اور زید کے والد نے اپنی حیات میں اپنے بھائی کو اس زمین میں سے کچھ حصہ دینے کا کہا تھاکہ "ہم تمہیں حصہ دیں گے"لیکن اپنی حیات میں قبضہ وتصرف کے ساتھ اس زمین میں سے اُنہیں کچھ حوالہ نہیں کیاتھا، تواب زید کے والد کے انتقال کے بعد محض مذکورہ وعدہ کی بنیادپر زید مرحوم کے بھتیجوں کا مذکورہ زمین پرگھربنانا جائز نہیں، بل کہ مذکورہ زمین مرحوم کا ترکہ ہے، جو مرحوم کے تمام ورثاء میں درج ذیل تناسب سے تقسیم ہوگا۔
زید کے والد مرحوم کی میراث تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہےکہ سب سے پہلے زیدکے والد کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر اُن کے ذمہ کوئی قرضہ ہو،تو بقیہ کل ترکہ میں سے قرضہ ادا کرنے کے بعد،اور اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو،تو بقیہ ترکہ کے ایک تہائی میں سے وصیت نافذکرنے کےبعد کل منقولہ وغیر منقولہ ترکہ کو88 حصوں میں تقسیم کرکے11 حصے مرحوم کی بیوہ کو، اور 14 حصے ہر ایک بیٹے کو، اور 7 حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
زیدکا والد مرحوم:8/ 88
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | ||||||||
11 | 14 | 14 | 7 | 7 | 7 | 7 | 7 | 7 | 7 |
یعنی فیصد کے اعتبار سے 12.5 فیصد مرحوم کی بیوہ کو، اور 15.909فیصدہر ایک بیٹے کو، اور 7.954فیصد ہر ایک بیٹی کو ملےگا۔
نوٹ: مرحوم کے ترکہ کی مذکورہ تقسیم مرحوم کے والدین کے فوت ہونے کی صورت میں ہے، اگر مرحوم کے والدین میں سے کوئی ایک یادونوں حیات ہوں، تو ترکہ کی تقسیم الگ ہوگی۔
الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:
"(وتتم بالقبض) قال في الهداية القبض لا بد منه لثبوت الملك؛ لأن الهبة عقد تبرع وفي إثبات الملك قبل القبض إلزام المتبرع شيئا لم يتبرع به وهو التسليم فلا يصح."
(كتاب الهبة،325/1،ط:المطبعة الخيرية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144508101705
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن