بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا زکوۃ کی رقم سے فلسطینی مسلمانوں کی امداد کی جا سکتی ہے؟


سوال

 کیا زکوۃ کی رقم سے فلسطینی مسلمانوں کی امداد کی جا سکتی ہے؟

جواب

فلسطین کے مستحقِ زکوۃ مسلمانوں(ایسے غریب اور ضروت مند  شخص جس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر  رقم نہیں ہے ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید  ، ہاشمی  )کی  زکوۃ کی رقم سے امداد کی جا سکتی ہے،اورکسی ایسے معتبر ادارے کے ذریعہ زکات کی رقم فلسطین کے مظلومین کے لیے دی جا سکتی ہے جو زکات کی رقم مستحقین تک پہنچائے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ."(التوبة: 60)

ترجمہ:"صدقات تو صرف حق ہے غریبوں کا اور محتاجوں کا اور جو کارکن ان صدقات پر معین ہے اور جن کی دلجوئی کرنا ہے اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے قرضے میں اور جہاد میں اور مسافروں میں یہ حکم اللہ کی طرف سے مقرر ہے اور اللہ تعالی بڑے علم والے بڑی حکمت والے ہیں ۔"(از بیان القرآن)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ویجوز دفعھا الی من یملک اقل من النصاب."

(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف،189/1، ط: رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"باب المصرف أي مصرف الزكاة والعشر، ....(هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة."

(كتاب الزكاة، باب العشر،339/2، ط:  سعيد)

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے :

"اتفق الفقهاءعلى أنه يجوز التوكيل في أداء الزكاة، بشرط النية من الموكل أو المؤدي، فلو نوى عند الأداء أو الدفع للوكيل........ ثم أداها الوكيل إلى الفقير بلا نية جاز؛ لأن تفرقة الزكاة من حقوق المال، فجاز أن يوكل في أدائه كديون الآدميين. وللوكيل أن يوكل غيره بلا إذن ولو نوى الوكيل."

(‌‌القسم الأول، الباب الرابع،‌‌ المبحث السابع،‌‌ المطلب الثاني، التوكيل في أداء الزكاة، ج3، ص:1975، ط: دار الفكر)

فتاوی عالمگیری میں ہے :

"ويكره ‌نقل ‌الزكاة من بلد إلى بلد إلا أن ينقلها الإنسان إلى قرابته أو إلى قوم هم ‌أحوج إليها من أهل بلده."

(كتاب الزكاة،الباب السابع في المصارف،ج1،ص190،ط:رشیدیة)

آپ کے مسائل اور اُن کا حل میں ہے :

"جواب: زکات ادا کرنے والوں نے زکات نکال کر انجمن کو وکیل بنا دیا ہے،اس لیے ان کو تو ثواب ملے گا ،آگے انجمن کی ذمہ داری ہے کہ اس کو صحیح خرچ کرے۔"

(ص176،ج5،ط:مکتبہ لدھیانوی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144505101897

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں