بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ذکر بالجہر بدعت ہے؟


سوال

آج کل جو مشہور خانقاہیں ہیں،  ان  کا طریقہ کار اور سالکین کو ذکر بالجہر کروانا ،  مختلف شہروں میں اپنی مجالس میں بھی ذکر بالجہر  کرواتے ہیں،  اس کا حکم کیا ہے؟ نیز یہاں ایک جماعت کے لوگ ہیں ، جو خود بھی علمائے دیوبند کے ساتھ منسلک  ہیں،  وہ اس عمل کو بدعت اور بڑے بڑے علماء کی گستاخی کرتے ہیں  ان کو بدعتی کہتے ہیں،  ابھی حال میں ان لوگوں نے ایک بڑے ادارے سے فتویٰ لیا ہے جس میں ذکر بالجہر کو بدعت قرار دیا ہے۔ 

جواب

واضح رہے کہ اصولی اور عمومی طور پر تو تنہائی میں  آہستہ آواز  سے ذکر کرنا بہتر ہے، لیکن  اجتماعی طور پر جہرًا ذکر کرنا بھی شریعتِ  مطہرہ کی رو سے جائز ہے، اس کو  مطلقًا بدعت سمجھنا درست نہیں ہے، کیوں کہ جہرًا  ذکر کرنے کی اصل  حدیث سے ثابت ہے، حدیثِ قدسی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

"جب میرا بندہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے یاد کرتا ہوں، پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں (یعنی چھپ کر آہستہ سے تنہائی میں) یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں (یعنی تنہائی میں جیسے اس کی شان ہے) یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی مجمع میں یاد کرتا ہے (یعنی لوگوں کے درمیان جہرًا میرا ذکر کرتا ہے) تو میں اس سے بہتر اور افضل مجمع (یعنی فرشتوں کے مجمع) میں اس کا تذکرہ کرتا ہوں۔"

بلکہ فقہاءِ کرام نے بعض احوال و اشخاص کے اعتبار سے ذکر بالجہر کو  افضل قرار دیا ہے، لہذا اگر کوئی  متبعِ  شریعت  شیخِ  کامل  اپنے  مریدوں  کی اصلاح  و تربیت  کے  لیے  جہری  ذکر  کی مجلس منعقد کرے اور اس  میں  درج  ذیل شرائط کا اہتمام کیا جائے تو  یہ  جائز ہے:

1: ریا ونمود کا خوف نہ ہو۔

  2: اصرار والتزام نہ ہو، یعنی شرکت  نہ کرنے والوں کو اصرار کرکے شرکت پر آمادہ نہ کیا جائے اور شریک نہ ہونے والوں پر طعن وتشنیع نہ کی جائے۔

3: آواز شرکاءِ حلقہ تک ہی محدودو رکھی جائے۔ مسجد میں ذکر یا کوئی بھی ایسا عمل اتنی آواز سے کرنا جس سے دیگر لوگوں یااہلِ محلہ کو تشویش ہوتی ہو قطعاً جائز نہیں ہے۔ 

نیز دوسری جماعت کا ذکر بالجہر کو مطلقاً بدعت قرار دینا اور اس کی وجہ سے دوسرے علماء کو بدعتی کہنا درست نہیں ۔

صحيح مسلم  میں ہے:

"حدثنا قتيبة بن سعيد، وزهير بن حرب - واللفظ لقتيبة - قالا: حدثنا جرير، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يقول الله عز وجل: "أنا عند ظن عبدي بي، وأنا معه حين يذكرني، إن ذكرني في نفسه، ذكرته في نفسي، وإن ذكرني في ملإ، ذكرته في ملإ هم خير منهم".

(كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار ، باب الحث على ذكر الله تعالى ج:4 ص:2061 ط:دار إحياء التراث العربي)

فتاوی شامی  میں ہے:

’’مطلب في رفع الصوت بالذكر

(قوله: و رفع صوت بذكر إلخ) أقول: اضطرب كلام صاحب البزازية في ذلك؛ فتارةً قال: إنّه حرام، وتارةً قال: إنّه جائز. وفي الفتاوى الخيرية من الكراهية والاستحسان: جاء في الحديث به اقتضى طلب الجهر به نحو: "وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم" رواه الشيخان. وهناك أحاديث اقتضت طلب الإسرار، والجمع بينهما بأن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص و الأحوال كما جمع بذلك بين أحاديث الجهر و الإخفاء بالقراءة و لايعارض ذلك حديث "خير الذكر الخفي"؛ لأنه حيث خيف الرياء أو تأذي المصلين أو النيام، فإن خلا مما ذكر؛ فقال بعض أهل العلم: إن الجهر أفضل؛ لأنه أكثر عملًا و لتعدي فائدته إلى السامعين، و يوقظ قلب الذاكر فيجمع همّه إلى الفكر، و يصرف سمعه إليه، و يطرد النوم، و يزيد النشاط. اهـ. ملخصًا، و تمام الكلام هناك فراجعه. وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفًا و خلفًا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد و غيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ إلخ."

(‌‌‌‌كتاب الصلاة ، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها ج: 1 ص: 660 ط: سعید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101919

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں