بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ضریب نام رکھنا درست ہے ؟


سوال

میرے بیٹے کا نام "ضریب خان "ہے، وہ پانچ سال کا ہے اب لوگ کہتے ہیں کہ یہ نام درست نہیں ہے، راہنمائی فرمائیے  کہ کیا میں نے کوئی غلطی کر دی ہے؟

جواب

واضح رہے بچوں کے لیے کسی اچھے نام کا انتخاب کرنا (یعنی کوئی مناسب معنی والا نام رکھنا) والد کی ذمہ داری ہے،اگر کسی وجہ سے بچے کا ایسا نام رکھ دیا گیاہو، جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہو (یعنی نامناسب معنی والا نام ہو) تو اسے بدل دینا چاہیے؛  نیز نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ آپﷺ برے ناموں کو بدل کر اچھا نام رکھا کرتےتھے۔

لفظ ِ"  ضریب "کے عربی لغت کی کتا بوں میں مختلف معانی بیا ن کیے گئے ہیں :

1۔جب ایک پیالے میں رات کو پھر اسی پیالے میں اگلے دن پھر دودھ دھویا جائے اس پیالے کو بھی"ضریب "کہتے ہیں ۔

2۔جب دودھ کے اوپر دودھ دھویا جائے یا بہایا جائے ،تو اس کو بھی "ضریب "کہتے ہیں ۔

3۔ایک ہی برتن میں چند دفع دودھ دھویا جائے اس کو بھی "ضریب "کہتے ہیں ۔

4۔زمین وغیرہ یا کسی چیز میں مضبوط گڑی ہوئی کیل کو "وتد ضریب "کہتے ہیں ۔

5۔ہم شکل افراد پر بھی لفظ،"ضریب " کا اطلاق عربی زبان میں ہوتا ہے ۔

6۔جوے کے پیالوں میں سے تیسرے پیالے کو"ضریب "کہتے ہیں ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں کسی بچے کا نام "ضریب " رکھنا معنیٰ کے لحاظ سے مناسب نہیں ہے ،اس لیے سائل کو چاہیے کہ  اپنے بچے کے نام سنتِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے ،اس نام کو تبدیل کر کے کوئی اچھا سا نام تجویز  کر کے رکھیں ،بہتر یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا تابعین اور سلفِ صالحین کے ناموں میں سے کسی نام کا انتخاب کر کے وہ نام رکھیں ۔

فائدہ :

ہمارے جامعہ کی ویب سائٹ پر اچھے ناموں کا عمدہ ذخیرہ موجود ہے ،وہاں سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔

ترمذی شریف میں ہے:

"عن عائشة: أن النبي صلی الله علیه وسلم كان یغیر الإسم القبیح."

(ابواب الأداب، باب ماجاء فی تغییر الأسماء، ج:2، ص:11، ط:قديمى كتب خانه)

شعب  الایمان میں ہے :

"عن عطاء عن ابن عباس أنهم قالوا: يا رسول الله قد علمنا ما حق الوالد على الولد فما ‌حق ‌الولد على الوالد؟ قال: أن يحسن اسمه ويحسن أدبه."

(حقوق الاولاد والاهليين ،ج:6 ،ص:400 ،ط:دارالكتب العلمية)

ترجمہ: "باپ پر بچہ کا حق ہے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے ،اور اس کو حسنِ معاشرت سکھائے ۔"

سننِ ابی داؤد میں ہے :

’’وَغَیَّرَ النَّبِیُّ ﷺ اسْمَ الْعَاصِ، وَعَزِیزٍ، وَعَتَلَۃَ، وَشَیْطَانٍ، وَالْحَکَمِ، وَغُرَابٍ، وَحُبَابٍ، وَشِہَابٍ، فَسَمَّاہُ ہِشَامًا، وَسَمّٰی حَرْبًا: سَلْمًا، وَسَمّٰی الْمُضْطَجِعَ: الْمُـنْبَعِثَ، وَاَرْضًا تُسَمّٰی عَفِرَۃَ (۱۲) سَمَّاہَا خَضِرَۃَ، وَشِعْبَ الضَّلاَلَۃِ سَمَّاہُ شِعْبَ الْہُدٰی، وَبَنُو الزِّنْیَۃِ سَمَّاہُمْ بَنِی الرِّشْدَۃِ، وَسَمّٰی بَنِيْ مُغْوِیَۃَ: بَنِيْ رِشْدَۃَ۔‘‘ 

(كتاب الادب ،باب تغيير الاسم القبيح ،ج:4 ،ص:444،ط:المطبعة الانصارية)

ترجمہ: "اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے عاص(نافرمانی کرنے والا)، عزیز(غالب/اللہ کی صفت) ، عتلۃ(سختی اور شدت)، شیطان(ابلیس مردود)،حکم(فیصلہ کرنے والا/اللہ کی صفت)، غراب( کوا ، خبیث پرندہ)، حباب (شیطان کا نام) جیسے نام تبدیل فرمائے۔ اسی طرح شہاب(شعلہ، چنگاری) نام تبدیل فرما کرہشام(فیاضی وسخاوت) رکھا۔ اورحرب (جنگ)کو تبدیل کر کےسلم (صلح وسلامتی) نام رکھا۔ اور مضطجع(لیٹنے والا) کو بدل کرمنبعث(اٹھنے والا) رکھا۔ اسی طرح ایک زمین جوعفرۃ(بنجر زمین) کہہ کر پکاری جاتی تھی اس کا نامخضرۃ ( سرسبز و شاداب)رکھا، اور شعب الضلالۃ( گمراہی کی گھاٹی) کو بدل کر شعب الہدیٰ (رہنمائی کی گھاٹی) رکھا۔ اسی طرح بنو الزِنیۃ(زنا کی اولاد) کو بدل کر بنو الرِّشدۃ (بھلائی والے)کیا۔ اوربنو مُغویۃ(گمراہی والے) کو بدل کربنو رِشدۃرکھا۔ "

وفيه ايضاّ:

 "عن ‌أبي وهب الجشمي وكانت له صحبة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌تسموا بأسماء الأنبياء، وأحب الأسماء إلى الله عبد الله وعبد الرحمن، وأصدقها حارث وهمام، وأقبحها حرب ومرة."

(باب في تغير الاسماء ،ج:4 ،ص:443 ،ط :المطبعة الانصارية)

تاج العروس میں ہے :

"(و) الضريب: (القدح الثالث) من قداح الميسر. وذكر اللحياني أسماء قداح الميسر الأول والثاني ثم قال: والثالث: الرقيب، وبعضهم يسميه الضريب، وفيه ثلاثة فروض، وله غنم ثلاثة أيضا إن فاز، وعليه غرم ثلاثة أيضا إن لم يفز، كذا في لسان العرب.

(و) ‌ضريب الشول: (اللبن يحلب) بعضه على بعض، عن أبي نصر، ومثله في الصحاح. وقال الأصمعي: إذا صب بعض اللبن على بعض فهو الضريب. وعن ابن سيده: الضريب من اللبن: الذي يحلب (من عدة لقاح في إناء) واحد فيضرب بعضه ببعض، ولا يقال ‌ضريب لأقل من لبن ثلاث أينق."

(ضرب ،ج:2 ،ص :246 ،ط:دارالهدية)

لسان العرب میں ہے :

"والضريب: المضروب. والمضرب والمضراب جميعا: ما ضرب به...... وضرب الوتد يضربه ضربا: دقه حتى رسب في الأرض. ووتد ‌ضريب: مضروب؛ هذه عن اللحياني."

هو ‌ضريب إذا حلب عليه من الليل، ثم حلب عليه من الغد، فضرب به. ابن الأعرابي: الضريب: الشكل في القد والخلق. ويقال: فلان ‌ضريب فلان أي نظيره، وضريب الشيء مثله وشكله. ابن سيده: الضرب المثل والشبيه، وجمعه ضروب. وهو الضريب:وجمعه ضرباء. وفي حديثابن عبد العزيز: إذا ذهب هذا وضرباؤه۔"

: الضريب :هم الأمثال والنظراء، واحدهم ‌ضريب. والضرائب: الأشكال. وقوله عز وجل: كذلك يضرب الله الحق والباطل."

(فصل في الضاب ،ج:1 ،ص:558 ،ط:دارصادر)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144411102136

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں