بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا زمزم کا پانی کھڑے ہو کر پی سکتے ہیں؟


سوال

آب زم زم کھڑے ہو کر پینا چاہیئے یا بیٹھ کر؟ آب زم زم کے بارے میں مختلف باتیں سننے کو ملتی ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسے کھڑے ہو کر پینا چاہیئے بعض کہتے ہیں بیٹھ کر، حج وعمرہ میں یا اپنے گھروں میں، دونوں صورتوں میں رہنمائی فرما دیں۔

جواب

آبِ زم زم کھڑے ہوکر اور بیٹھ کر دونوں طرح پینا جائز ہے، چاہے حج و عمرہ کے دوران پیا جائے یا گھر میں ، تاہم کھڑے ہوکر پینا مستحب ہے۔

ملا علی قاری رحمہ اللہ  مشکاۃ المصابیح کی شرح مرقاۃ المفاتیح میں  اس کی حکمت لکھی ہے کہ: آب زمزم  کھڑے ہوکر پینےکی وجہ یہ ہے، کہ زمزم کے پانی میں مطلوب یہ ہے کہ خوب سیر ہو کر پانی پیا جائے، اور اس پانی کی برکت جسم کے تمام اعضاء تک پہنچ جائے، اور یہ دونوں مقصد کھڑے ہوکر پانی پینے سے حاصل ہوں گے۔

چند احادیث ملاحظہ ہوں :

1۔امام شعبی سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمزم کا پانی پلایا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کھڑے ہو کر پیا تھا۔ عاصم نے بیان کیا کہ عکرمہ نے قسم کھا کر کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دن اونٹ پر سوار تھے۔

2۔ محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی بکر کہتے ہیں کہ میں عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا، تو انہوں نے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو؟ اس نے کہا: زم زم کے پاس سے، پوچھا: تم نے اس سے پیا جیسا پینا چاہیئے، اس نے پوچھا: کیسے پینا چاہیئے؟ کہا: جب تم زم زم کا پانی پیو تو کعبہ کی طرف رخ کر کے کھڑے ہو اور اللہ کا نام لو، اور تین سانس میں پیو، اور خوب سیر ہو کر پیو، پھر جب فارغ ہو جاؤ تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’ہمارے اور منافقوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ وہ سیر ہو کر زمزم کا پانی نہیں پیتے۔‘‘

صحیح البخاری میں ہے:

" حدثنا ‌محمد، هو ابن سلام: أخبرنا ‌الفزاري، عن ‌عاصم، عن ‌الشعبي: أن ‌ابن عباس رضي الله عنهما حدثه قال: «سقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم من زمزم، فشرب وهو قائم. قال عاصم: فحلف عكرمة: ما كان يومئذ إلا على بعير."

( كتاب الحج،باب ما جاء في زمزم، ٢ / ١٥٦، ط: السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق مصر)

سنن ابن ماجه میں ہے:

"٣٠٦١ - حدثنا علي بن محمد قال: حدثنا عبيد الله بن موسى، عن عثمان بن الأسود، عن محمد بن عبد الرحمن بن أبي بكر، قال: كنت عند ابن عباس جالسا، فجاءه رجل، فقال: من أين جئت؟ قال: من زمزم، قال: فشربت منها، كما ينبغي؟ قال: وكيف؟ قال: إذا شربت منها، فاستقبل القبلة، واذكر اسم الله، وتنفس ثلاثا، وتضلع منها، فإذا فرغت، فاحمد الله عز وجل، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن آية ما بيننا، وبين المنافقين، إنهم لا يتضلعون، من زمزم."

(كتاب المناسك، باب الشرب، من زمزم، ٢ / ١٠١٧، ط: دار إحياء الكتب العربية)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

" أو النهي عنده ليس على إطلاقه فإنه مخصص بماء زمزم، وشرب فضل الوضوء كما ذكره بعض علمائنا. وجعلوا القيام فيهما مستحباً وكرهوه في غيرهما، إلا إذا كان ضرورةً، ولعل وجه تخصيصهما أن المطلوب في ماء زمزم التضلع ووصول بركته إلى جميع الأعضاء، وكذا فضل الوضوء مع إفادة الجمع بين طهارة الظاهر والباطن، وكلاهما حال القيام أعم، وبالنفع أتم، ففي شرح الهداية لابن الهمام: ومن الأدب أن يشرب فضل ماء وضوئه مستقبلاً قائماً، وإن شاء قاعداً اهـ، وظاهر سياق كلام علي -رضي الله تعالى عنه- أن القيام مستحب في ذلك المقام؛ لأنه رخصة".

(كتاب الأطعمة ،باب الأشربة ،ج: 7 ،ص:2747 ،ط:دارالفكر)

المحیط البرہانی میں ہے:

"ومن الأدب: أن يشرب فضل وضوئه أو بعضه مستقبل القبلة إن شاء قائماً، وإن شاء قاعداً، هكذا ذكره شمس الأئمة الحلواني رحمه الله. وذكر شيخ الإسلام المعروف بخواهر زادة رحمه الله أنه يشرب ذلك قائماً قال: ولا يشرب الماء قائماً، إلا في موضعين أحدهما: هذا، والثاني: عند زمزم."

(کتاب الطهارۃ ، الفصل الثانی فی بیان ما یوجب الوضوء و ما لایوجب جلد ۱ ص: ۴۹ ط: دارالکتب العلمیة)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وأن يشرب بعده من فضل وضوئه) ‌كماء ‌زمزم (مستقبل القبلة قائما) أو قاعدا، وفيما عداهما يكره قائما تنزيها."

(كتاب الطهارة ،باب سنن الوضوء ،ج:1 ،ص:129 ،ط:سعيد)

 وفيه وايضاّ:

"لا يشرب قائما إلا في هذا وعند زمزم."

(كتاب الطهارة ،ج:1 ،ص:250 ،ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100937

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں