اس سال ہمارے علاقہ میں گندم میں بیماری کی وجہ سے بہت کم پیداوار ہوئی ہے، کیا ہم اس نقصان یا کم پیداوار کی وجہ سے گندم سے زکاۃ دے سکتے ہیں؟
صورتِ مسئولہ میں اگر سوال مالی زکاۃ سے متعلق ہے (یعنی عشر وغیرہ سے متعلق سوال نہیں ہے)، تو اس صورت میں جتنی زکاۃ بنتی ہو، اس رقم کے مساوی قیمت پر گندم لے کر مستحقین کو مالکانہ طور پر دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی۔
البتہ اگر گندم کی پیداوار پر عشر کے وجوب یا عدم وجوب سے متعلق سوال ہو تو ایسی صورت میں اگر پیداوار عشری و بارانی زمین کی ہو تو کل پیداوار کا عشر (دسواں حصہ یعنی دس فیصد) دینا لازم ہوگا، اور اگر زمین بارانی نہ ہو بلکہ ٹیوب ویل وغیرہ کے ذریعہ اسے سیراب کیا جاتا ہو تو ایسی صورت میں پیدوار کا نصف عشر (بیسواں حصہ، یعنی پانچ فیصد) لازم ہوگا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وَيَجِبُ الْعُشْرُ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - فِي كُلِّ مَا تُخْرِجُهُ الْأَرْضُ مِنْ الْحِنْطَةِ وَالشَّعِيرِ وَالدُّخْنِ وَالْأَرْزِ، وَأَصْنَافِ الْحُبُوبِ وَالْبُقُولِ وَالرَّيَاحِينِ وَالْأَوْرَادِ وَالرِّطَابِ وَقَصَبِ السُّكَّرِ وَالذَّرِيرَةِ وَالْبِطِّيخِ وَالْقِثَّاءِ وَالْخِيَارِ وَالْبَاذِنْجَانِ وَالْعُصْفُرِ، وَأَشْبَاهِ ذَلِكَ مِمَّا لَهُ ثَمَرَةٌ بَاقِيَةٌ أَوْ غَيْرُ بَاقِيَةٍ قَلَّ أَوْ كَثُرَ هَكَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ سَوَاءٌ يُسْقَى بِمَاءِ السَّمَاءِ أَوْ سَيْحًا يَقَعُ فِي الْوَسْقِ أَوْ لَا يَقَعُ هَكَذَا فِي شَرْحِ الطَّحَاوِيِّ وَيَجِبُ فِي الْكَتَّانِ وَبَذْرِهِ؛ لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مَقْصُودٌ كَذَا فِي شَرْحِ الْمَجْمَعِ. وَيَجِبُ فِي الْجَوْزِ وَاللَّوْزِ وَالْكَمُّونِ وَالْكُزْبَرَةِ هَكَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ". ( كتاب الزكوة، الْبَابُ السَّادِسُ فِي زَكَاةِ الزَّرْعِ وَالثِّمَارِ، ١ / ١٨٦، ط: دار الفكر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وَمَا سُقِيَ بِالدُّولَابِ وَالدَّالِيَةِ فَفِيهِ نِصْفُ الْعُشْرِ، وَإِنْ سُقِيَ سَيْحًا وَبِدَالِيَةٍ يُعْتَبَرُ أَكْثَرُ السَّنَةِ فَإِنْ اسْتَوَيَا يَجِبُ نِصْفُ الْعُشْرِ كَذَا فِي خِزَانَةِ الْمُفْتِينَ". ( كتاب الزكوة، الْبَابُ السَّادِسُ فِي زَكَاةِ الزَّرْعِ وَالثِّمَارِ، ١ / ١٨٦، ط: دار الفكر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وَلَا تُحْسَبُ أُجْرَةُ الْعُمَّالِ وَنَفَقَةُ الْبَقَرِ، وَكَرْيُ الْأَنْهَارِ، وَأُجْرَةُ الْحَافِظِ وَغَيْرُ ذَلِكَ فَيَجِبُ إخْرَاجُ الْوَاجِبِ مِنْ جَمِيعِ مَا أَخْرَجَتْهُ الْأَرْضُ عُشْرًا أَوْ نِصْفًا كَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ.، وَلَا يَأْكُلُ شَيْئًا مِنْ طَعَامِ الْعُشْرِ حَتَّى يُؤَدِّيَ عُشْرَهُ كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ. وَإِنْ أَفْرَزَ الْعُشْرَ يَحِلُّ لَهُ أَكْلُ الْبَاقِي وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - مَا أَكَلَ مِنْ الثَّمَرَةِ أَوْ أَطْعَمَ غَيْرَهُ ضَمِنَ عُشْرَهُ كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ فِي بَابِ مَا يُحْتَسَبُ لِصَاحِبِ الْأَرْضِ". ( كتاب الزكوة، الْبَابُ السَّادِسُ فِي زَكَاةِ الزَّرْعِ وَالثِّمَارِ، ١ / ١٨٧، ط: دار الفكر) فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109202677
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن