ہمارے یہاں کشمیر میں بہت سارے ٹرسٹ بیت المال کے نام سے بنائے گئے ہیں جو الحمد للہ بڑی محنت کر کے یہاں زکوۃ،عشر،قربانی کے جانوروں کی کھالیں، نذر و نیاز وغیرہ جمع کرکے غریب غرباء میں خرچ کرتے ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ جو ان بیت المالوں کو چلانے والے افراد ہیں، کیا وہ والعاملین علیھا کے زمرے میں شامل ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو کیا وہ ان بیت المالوں سے کچھ اپنے لیے استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں ؟
واضح رہے کہ ’’والعاملین علیھا‘‘ سے مراد وہ افراد ہیں جو حکومت کی طرف سے زکات اور صدقات جمع کرنے کےلئے متعین ہوں، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ مختلف ٹرسٹ بنام بیت المال کے لوگوں سے زکات، صدقات وغیرہ وصول کررہے ہیں، وہ ’’والعاملین علیھا‘‘ کے زمرے میں نہیں آئیں گے، اور ان کے لیے زکات کی رقم اپنے استعمال میں لانا درست نہیں ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(وعامل) يعم الساعي والعاشر (فيعطى) ولو غنيا لا هاشميا لأنه فرغ نفسه لهذا العمل فيحتاج إلى الكفاية.
وفي حاشيته: (قوله: يعم الساعي) هو من يسعى في القبائل لجمع صدقة السوائم والعاشر من نصبه الإمام على الطرق ليأخذ العشر ونحوه من المارة."
(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج: 2، ص: 340، ط: دار الفكر بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144403100936
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن