بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا یہ جو ہمیں نیلا دیکھ رہا ہے یہ آسمان ہے؟


سوال

 کیا یہ جو ہمیں نیلا دیکھ رہا ہے ، یہ آسمان ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ساتوں آسمانوں کا ذکر کیا ہے؟تفصیل سے بیان کریں!

 

جواب

بلاشبہ آسمان کا ایک وجود ہے  جس پرقرآن و حدیث شاہد ہے، اور مسلمان کے لیے اس پر ایمان لانا ضروری ہے،البتہ نصوص میں یہ تصریح نہیں کی گئی کہ اوپر جو نیلگوں چیز ہم کو نظر آتی ہے وہ ہی آسمان ہے ہوسکتا ہے کہ   آسمان اس کے اوپر ہو اور یہ نیلگوں  چیز آسمان کی چھت گیری کا کام دیتی ہو۔

اور اللہ  رب العزت نے بے شک سات آسمانوں  کا ذکرقران مجید میں  فرمایا  ہے۔ 

"الَّذِي خَلَقَ سَبعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا  مَا تَرٰي فِی خَلقِ الرَّحمٰنِ مِن تَفٰوُتٍ  فَارجِعِ البَصَرَ ھل تَرٰي مِن فُطُورٍ﴿الملك۳﴾

ترجمہ :جس نے سات آسمان اوپر تلے پیدا کیے تو خدا کی اس صنعت میں کوئی خلل نہ دیکھے گا سو تو (اب کی بار) پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لے کہیں تجھ کو کوئی خلل نظر آتا ہے (یعنی بلاتامل تو نے بہت بار دیکھا ہوگااب کی بار تامل سے نگاہ کر) ۔(از بیان القرآن)

 تفسیر عثمانی  میں ہے:

حدیث میں آیا  ہے، کہ ایک آسمان کے اوپر دوسرا آسمان، دوسرے پر تیسرا اسی طرح سات آسمان اوپر نیچے ہیں، اور ہر ایک آسمان سے دوسرے تک پانچ سو برس کی مسافت ہے، نصوص میں یہ تصریح نہیں کی گئی کہ اوپر جو نیلگونی چیز ہم کو نظر آتی ہے، وہ ہی آسمان ہے،  ہوسکتا ہے کہ ساتوں آسمان اس کے اوپر ہوں اور یہ نیلگونی چیز آسمان کی چھت گیری کا کام دیتی ہو۔"

 ( تفسیر عثمانی ،ج:3، ص:733، ط:دار الاشاعت)

 تفسیر معارف القرآن میں مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: 

(آیت) فَارْجِعِ الْبَصَرَ  هَلْ تَرٰى مِنْفُطُوْرٍ ،اس آیت سے ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا والے آسمان کو آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ نیلگوں فضا جو دکھائی دیتی ہے یہی آسمان ہو بلکہ ہوسکتا ہے، آسمان اس سے بہت اوپر ہو اور یہ نیلگوں رنگ ہوا اور فضا کا ہو ، جیسا کہ فلاسفہ کہتے ہیں ،مگر اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ آسمان انسان کو نظر ہی نہ آئے، ہوسکتا ہے کہ یہ نیلگوں فضا شفاف ہونے کے سبب اصل آسمان کو جو اس سے بہت اوپر ہے دیکھنے میں مانع نہ ہو اور اگر کسی دلیل سے یہ ثابت ہو جائے کہ دنیا میں رہتے ہوئے آسمان کو آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا تو پھر اس آیت میں رویت سے مراد رویت عقلی یعنی غورو و فکر ہوگا ۔"

(معارف القرآن،ج:8، ص:517، ط:ادارۃ المعارف کراتشی)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

سماء :

اصل معنی ہے بلند حصہ کے، سماء کل شیئ اعلاه(المفردات) یعنی ہر چیز کے اوپر کے حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ،سقف کل شیئی، وکل بیت، ورواق البیت والسحاب والمطر(القاموس) یعنی ہر چیز کی چھتری کو مکان کی چھت کو ، اور برآمدے (برانڈے) سرا پر دے کو ’’ سماء‘‘ کہتے ہیں  ، اور بادل و بارش کے معنی میں  بھی آتا ہے  (قاموس) چونکہ ہر چیز کے بلند حصہ کو ’’ سماء‘‘ کہا جاتا ہے، لہذا وہ فضاء جو اوپر نظر آتی ہے ، اس کو بھی سماء کہا جاتا ہے ، اور آسمان کو بھی سماء کہا جاتا ہے ۔

"قال بعضھم کل سماء بالا ضافة الیٰ مادو نھا فسماء وبالا ضافة الیٰ ما فوقھا الارض الا السماء العلیا فانھا سماء بلا ارض."

 قرآن مجید کی تقریباً ایک سو بیس 120 آیتوں  میں  لفظ سماء انہی مختلف معنوں  میں آیا ہے ، یعنی اوپر کی فضاء،بادل،بارش، اور کہیں  آسمان کے معنی میں  آیا ہے۔‘‘

سماوات:

بلحاظ لغت سماء کی جمع ہے ۔ اور جہاں  جہاں  سماء کا اطلاق ہوسکتا ہے،یعنی بادل، بارش، چھت، وغیرہ وہاں  جمع کے لئے سماوات بھی بولا جاسکتا ہے ، مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک سوتیس 130 آیتوں  میں  جو السموات وارد ہے ، تو ہر جگہ اس طرح کے عام معنی مراد نہیں  ، بلکہ ایک مخصوص حقیقت  ہے، جس کو اس لفظ سے تعبیر کیا جارہا ہے ۔ مسلمانوں  نے جب فلسفہ یونان کو اپنایا اور وہ اس کے استاد اور معلم بنے تو انہوں  نے افلاک ہی کو سماوات قرار دیا، سبع سماوات سے مراد وہ آسمان لیے جن میں  سات سیارے ہیں  اور آٹھویں ، نویں  آسمان کے متعلق کہہ دیا، کہ اصطلاح شریعت میں  ان کو عرش و کرسی کہا جاتا ہے ، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تاویل ایسی ہی ہے۔ کہ جیسے کچھ جدت پسندوں  نے کہہ دیا تھا کہ خرعیسیٰ سے مراد ریلوے ہے اور جن سے مراد دیہات کے گنوار۔

آسمان او رنصوص شریعت:

قرآن حکیم اور  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات مبارکہ میں  جس طرح سماوات (آسمانوں  ) کا ذکر آیا ہے، اس سے آسمانوں  کی نوعیت بالکل جدا گانہ معلوم ہوتی ہے ،

انسان جس کو بہترین پیکر’’ احسن تقویم‘‘ عطا ہوا ہے، فلاسفہ اگرچہ اس کو صرف ایک ’’ حیوان‘‘ مانتے ہیں  ، جو صرف قوت فکر وادراک کی بناء پر دوسرے حیوانات سے ممتاز ہے ، مگر نصوص شریعت نے اس کے لئے روحانیت بھی تسلیم کی ہے ، اور اس عالم (جہان) کے ساتھ ایک اور عالم (جہان) بھی تسلیم کیا ہے، جس کو ہم عالم بالا’’ ملاء اعلیٰ‘‘کہتے ہیں ، اور انسان کا عالم بالا سے بہت گہرا تعلق ظاہر کیا ہے ، فرشتے عالم بالا ہی کی مخلوق ہیں ، جو انسان کے ساتھ رہتے ہیں  ۔ وہ اس کی حفاظت بھی کرتے ہیں  ،اس کے ہر عمل کو لکھتے بھی رہتے ہیں ،موقع بہ موقع اس کی امداد بھی کرتے ہیں  ، انسان اگر اچھے کام کرے تو فرشتے اس کی قدر کرتے ہیں  ۔ برے کاموں  پر اس سے نفرت کرتے ہیں  وغیرہ وغیرہ۔

بادل، ہوا، شجرو حجران سب میں  ایک ثناء خوان جو ہر ہے،  جو ہر وقت اپنے رب کی تسبیح میں  مصروف رہتا ہے ، فرشتوں  کا تعلق ان مادیات سے بھی ہے  وہ اﷲ کے حکم سے بادلوں  کو ہنکاتے ہیں  ، ہوائوں  کو چلاتے ہیں وغیرہ۔

جس طرح انسان اور ان مادی چیزوں  کا تعلق ملاء اعلیٰ اور فرشتوں  سے ہے ، احادیث اور قرآن پاک کی آیتوں  سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں  کا تعلق بھی ملاء اعلیٰ سے ہے اور بہت زیادہ ہے بلکہ حدیث معراج اور اس جیسی احادیث اور قرآن حکیم کی متعدد آیتوں  سے تو یہ مترشح ہو تا ہے کہ ساتوں  آسمان، عالم بالا ہی کی وجودی حقیقتیں  ہیں  ، اور قرآن پاک میں  جس قوت کے ساتھ نہ صرف بار بار بلکہ تقریباً سوا سو بار "سماوات" کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے بھی یہ اخذ کیا جاسکتا ہے اور سمجھا جاسکتا ہے۔ کہ ملائکہ، عرش و کرسی، روح، اور  برزخ وغیرہ کی طرح سما وات بھی الغیب میں  داخل ہیں  ،یعنی ان حقائق میں  داخل ہیں ۔ جو اگرچہ اپنا وجود رکھتی ہیں  ،مگر ہمارے مشاہدہ اور تجربہ کی رسائی ان تک  نہیں  ہوسکتی، لیکن ہماری حقیقی زندگی یعنی حیات اخروی اور اس کی کامیابی سے ان کا خاص تعلق ہے، لہذا ان کا ماننا ضروری ہے۔

(فتاوی رحیمیہ، ج:1، ص:61،  ط: دار الاشاعت)

فتاوی حقانیہ میں ہے:

"آسمان کے وجود سے انکار

سوال : جناب مفتی صاحب بعض تعلیم یافتہ  لوگوں سے سنا ہے،  کہ آسمان کا اپنا کوئی وجود نہیں اور یہ جو نیلگوں چھت ہمیں دکھائی دیتا ہے یہ وہ خلا ہے جو سیاہی اور سورج کی روشنی مخلوط ہو کر ایسا رنگ اختیار کر گیا ہے ۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا واقعی آسمان کا اپنا کوئی وجود نہیں، اگر نہیں تو قرآن و سنت میں جس آسمان (السماء ، السموات) کا ذکر آیا ہے اُس سےکیا مراد ہے ؟

الجواب: تمام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن مجید اُس ذات کی کتاب ہے جس نے تمام عالم کو پیدا کیا اور کارخانہ عالم کے تمام پرزے اور ان میں جو خاصیت اور قوت رکھی گئی ہے صرف اس ذات کے علم میں ہے، تو ایسی ذات کے کلام کا ایسے امور پرمشتمل ہونا نا ممکن ہے جو واقعات اور حقائق کے مخالف ہوں ۔ اسی بناء پر یہ نا ممکن ہے کہ قرآن اور سائنس کی صحیح تحقیقات میں تضاد اور مخالفت ہو،  سائنس کی تحقیقات قرآن کے مخالف اور متضاد معلوم ہوں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ مخلوق سے اس میں کوئی غلطی ہوئی ہے، خالق اور مالک حقیقی کی اپنے بنائے ہوئے کا ر خانہ کے بارہ میں بدگمانی نا ممکن ہے ، تو ایسی رسمی تحقیقات میں اگر لوگ نظر ثانی اور مکمل تحقیق کریں اور صرف تخمینہ اور اندازہ سے کام نہ لیں تو ضرور اپنے نظریہ کا غلط ہونا ان پر منکشف ہو جائے، ہر مسلمان کو یہ طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے ۔ موجودہ دور میں سائنسدانوں نے ایسے ایسے عجیب و غریب نظریات دنیا کے سامنے پیش کیسے ہیں کہ غیر مسلم تو در کنار بعض مسلمان بھی ان سے متاثر اور مرعوب نظر آتے ہیں جو آنکھیں بند کر کے سائنسدانوں کے ہر نظریہ کو قبول کرنے پر آمادہ ہو رہے ہیں حالانکہ اندھی تقلید کرنا اور بلا دلیل کسی سے مرعوب ہونا نہ عقل کا تقاضا ہے اور نہ شرع کا کیونکہ اللہ تعالی نے عقول میں تفاوت پیدا کیا ہے، کسی کی عقل کمزور اور نار سیدہ ہے اور کسی کی قوی اور دور رس ، یہی وجہ ہے کہ گذشتہ سائنسدانوں کے نظریات جدا تھے اور موجودہ زمانہ کے سائنسدانوں کے نظریات الگ ہیں ، ایک سائنسدان کا نظریہ الگ ہوتا ہے تو دوسرے کا الگ بلکہ بسا اوقات ایک شخص ایک وقت میں ایک نظریہ رکھتا ہے تو دوسرے وقت میں اپنی تحقیق اور نظریہ سےرجوع کر لیتا ہے۔ تو جب عقل کا یہ حال ہے تو کسی کے نظریات سے بلا دلیل مرعوب ہونا اوراس کی اندھی تقلید کرنا سراسر غلط اور خلاف عقل ہے بلکہ اس کی دلیل پر غور کرنے کے بعدکوئی رائے قائم کرنا ہی صحیح طریقہ کار ہے ۔

 وہ دلائل جن کے ذریعہ ہم کسی چیز کے متعلق یقین حاصل کرتے ہیں تین ہیں ۔

(1) اول حو اس خمسہ یعنی سامعہ، با صره ، شامه، لامسہ، ذائقہ جن کے ذریعہ ہم محسوسات پر علم اور یقین حاصل کرتے ہیں بشر طیکہ یہ حو اس صحیح ہوں آفت رسیدہ نہ ہوں۔ تو احول بھینگے شخص کو ایک چیز کا دو محسوس ہونا اور صفراوی مزاج والے کو میٹھی چیز کا تلخ محسوس ہونا کیونکہ خارجی آفت کیوجہ سے ہے تو یہ غلطی حو اس کے ذرائع یقین ہونے میں ہرگز خلل انداز نہیں ہو سکتی۔

(۲) دوسری دلیل عقل ہے جس کے ذریعے ہم ایک غیر محسوس چیز پر یقین کر سکتے ہیں اور جہاں حو اس کا کام ختم ہو جاتا ہے وہاں سے عقل کا کام شروع ہوتا ہے۔ مثلا جب ہم دھواں دیکھتے ہیں تو باوجود اس کے کہ ہمیں آگ نظر نہیں آرہی ہوتی ہمارا سوفیصد یقین ہوتا ہے کہ یہاں آگ موجود ہے، اور تب ہم خاک کا اڑنا اور درختوں کے پتوں کا ہلنا دیکھتے ہیں تو ہمیں یقین ہوتا ہے کہ ہو ا موجود ہے اور اس کا بھی کوئی وجود ہے ، اسی طرح جب ہم چاند کا گھٹنا بڑھنا دیکھتے ہیں تو ہم یہ یقین کرتے ہیں کہ چاند کی روشنی سورج سے حاصل ہے۔

(۳) تیسری دلیل کسی معتمد شخص کی اطلاع اور اخبار ہے جس کے ذریعے ہم ان چیزوں پر علم حاصل کرتے ہیں جن کی پہچان سے حواس اور عقل عاجز ہوں ۔ مثلا ایک شخص نے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ نہیں دیکھا لیکن ان شہروں کے وجود پر اس کو پورا یقین ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ صرف عقل نے اپنے پر کفایت کی ہے بلکہ اسے معتمد اطلاعات کی وجہ سے یہ یقین اور علم حاصل ہوا ہے اور ایک اندھا شخص جو کہ نہ تو کنواں اور سانپ دیکھ سکتا ہے،اور نہ عقل کے ذریعے اُسے یہ معرفت حاصل ہو سکتی ہے، تو اس کے لیے ایک معتمد شخص کی اطلاع ہی واحد ذریعہ ہے جس سے وہ یقین حاصل کر سکتا ہے، اور اندھے کا یہ کہنا کہ جب تک میری سمجھ میں نہ آئے کہ یہ سانپ اور کنواں ہے تو میں ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں ، یہ سراسر اس کی بیوقوفی ہوگی۔

بسا اوقات بعض لوگ کسی چیز کے وجود سے صرف اس وجہ سے انکار کر دیتے ہیں کہ یہ چیز نہ ہم نے دیکھی ہے اور نہ ہماری سمجھ میں آتی ہے۔ مختصر یہ کہ ہمیں اس کے وجود پر کوئی دلیل معلوم نہیں لہذا یہ چیز موجود ہی نہیں ہے لیکن اس طرح کسی چیز کے وجود کا انکار کر نا غلط ہے کیونکہ کسی کی بے علمی سے یہ لازم نہیں آتا کہ اور لوگوں کو بھی اس چیز کے وجود کا علم اور خبر نہ ہو، مثلاً:  ایک عامی اس سے انکار کرے کہ چاند اپنی روشنی سورج سے حاصل کرتا ہے اور یہ کہے کہ یہ میری سمجھ میں نہیں آتا ۔ تو چونکہ اوروں کو دلیل سے یہ بات ثابت ہے کہ چاند اپنی روشنی سورج سے حاصل کرتا ہے لہذا پہلی بات قابل سماعت نہ ہوگی ۔ موجودہ دور کے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ آسمان کا کوئی وجود نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہ نیلگوں چیز جو نظر آتی ہے یہ انسان کی حد نگاہ ہے۔ مگر یہ سراسر غلط ہے کیونکہ قرآن و حدیث سے یہ ثابت ہے کہ آسمان کا ایک مضبوط رنگدار وجود ہے جس میں دروازے بھی ہیں۔ اور بعض آثار و روایات میں تو ہر ایک آسمان کا مادہ بھی بیان کیا گیا ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ آسمان زمین سے پانچ سو سال کی مسافت پر دور ہے، اور اگر تین میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بھی مسافت ہو تو ایک کروڑ انتیس لاکھ ساٹھ ہزار میل تقریباً بنتے ہیں اور رنگ کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نیلا ہے ، اور بعض فرماتے ہیں کہ سرخ ہے لیکن دوری اور فاصلہ کی وجہ سے نیلا دکھائی دیتا ہے، جیسا کہ رگ میں خون پردہ کی وجہ سے اور سرخ پہاڑ دوری کی وجہ سے نیلگوں نظر آتا ہے، البتہ قیامت کے دن آسمان کا اصلی رنگ دکھائی دے گا ، یا نظر کے تیز ہونے کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ اس دن تمام حقائق منکشف ہوں گے جس کا فَكَانَتْ وَرَدَةً كالدهان (سورۃ الرحمن آیت ) میں ارشاد کیا گیا ہے ۔قرآن و حدیث کے دلائل حقہ سے بے خبر ہونے کی وجہ سے آسمان کو حد نگاہ خیال کرناایک بہت بڑی غلطی ہے۔ ایک اندھا آدمی جسے کوئی چیز نظر نہ آتی ہوا سے کسی دور پڑی ہوئی چیز کے وجود کے بارے میں ایک عام آدمی سنجیدگی سے بتا دے تو وہ فورا یقین کر لیتا ہے حالانکہ اُسے کچھ بھی نظر نہیں آتا اور ہمارے پاس آسمان کے وجود کے بارے میں ایک معتمد ذات  پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطلاعات ، اخبارات اور مشاہدات موجود ہوں اور پھر بھی ہم آسمان کو حد یا نگاہ کہیں تو یہ کس قدر عجیب بات ہے۔ اگر ایک سائنسدان کا مشاہدہ یا اطلاع تسلیم کی جاسکتی ہے تو کیا ایک مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی کوئی اطلاع قابل تسلیم نہیں ہو سکتی ؟والله اعلم بالصواب۔"

(فتاوی حقانیہ، کتاب العقائد والایمانیات،  ج:1، ص:265- 267، ط:جامعہ دارلعلوم حقانیہ اکوڑہ حٹک)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144506102241

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں