بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 ذو القعدة 1446ھ 23 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا والد کی زندگی میں بھائیوں کی طرف سے بہنوں کی شادی اور والد کی بیماری کے اخراجات والد کےانتقال کےبعدان کےترکہ سے منہا کیے جا سکتے ہیں؟


سوال

ہمارے والد صاحب کا انتقال 2012 میں ہوا۔ ان کے ترکہ میں صرف ایک بلڈنگ شامل ہے، جس کا ماہانہ کرایہ 35 ہزار روپے ہے۔ ہم دو بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ ہماری تینوں بہنوں کی شادی والد صاحب کی زندگی میں ہو چکی تھی۔ ان میں سے ایک بہن کی شادی والد صاحب نے خود کروائی تھی، جبکہ باقی دو بہنوں کی شادی ہم دو بھائیوں نے اپنی دکان کے کاریگروں سے قرض لے کر کروائی تھی۔ اُس وقت کوئی باقاعدہ بات نہیں ہوئی تھی کہ یہ قرض ہے، ہم نے صرف اخلاقاً یہ کام کیا۔

اسی طرح، والد صاحب  وفات سے پہلے  کینسر  کی بیماری میں مبتلا ہو گئے تھے، تو ان کا علاج چھوٹے بھائی نے کروایا، اور علاج کے اخراجات بھی اپنی دکان کے کاریگروں سے قرض لے کر پورے کیے۔ اُس وقت بھی یہ بات طے نہیں ہوئی تھی کہ یہ رقم قرض ہے، بلکہ یہ بھی اخلاقی فریضہ سمجھ کر ادا کی گئی۔

اب سوال یہ ہے:

1:کیابہنوں کی شادی کے اخراجات اور والد صاحب کے علاج پر جو رقم خرچ کی گئی ہے، وہ والد صاحب کی جائیداد میں سے نکالی جا سکتی ہے؟

2:ہماری ایک بہن طلاق یافتہ ہے اور اس کی ایک بیٹی (16سال کی )بھی ہے، تو اس بچی کی کفالت کس پر ہے؟

3:والدصاحب کی جائیداد شرعی لحاظ سے کس تناسب سے تقسیم ہوگی؟ کیا مذکورہ اخراجات منہا کر کے تقسیم ہوگی یا ان اخراجات کو شمار نہیں کیا جائے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  بھائیوں نے اپنی دو بہنوں کی شادی کے اخراجات کرتے وقت نہ تو بہنوں سے اس رقم کی واپسی کی نیت کی تھی، اور نہ ہی ان کے ساتھ اس بارے میں کوئی معاہدہ کیا تھا،بلکہ محض بہن ہونے کی بنیاد پر نیکی اور احسان کے طور پر یہ خرچ کیا،تویہ ان بھائیوں کی طرف سے تبرع (احسان) شمار ہوگا۔اوران کواس کاثواب ملےگا۔ لہٰذا بھائیوں کی طرف سے کیا گیا یہ خرچہ والدِ مرحوم کی جائیداد میں سے منہا نہیں کیا جا سکتا۔

اسی طرح والدِ مرحوم کی بیماری کے دوران جو اخراجات ہوئے، اور چھوٹے بھائی نے اپنی رضامندی سے، قرض لے کر یہ خرچ اپنے ذمے لیا، چونکہ ان اخراجات کی ادائیگی کے وقت اس نے نہ تو والد صاحب سےان اخراجات کےبقدر رقم واپس لینے کی نیت کی تھی، اور نہ ہی دیگر ورثاء سے ان کے حصے سے کاٹنے کا کوئی معاہدہ کیا تھا، بلکہ اسے اپنا اخلاقی  فریضہ سمجھ کر یہ سارا خرچ برداشت کیا، لہٰذا یہ چھوٹے بھائی کی طرف سے تبرع (احسان) شمار ہوگا،اس کووالدمرحوم کےساتھ اس نیکی کااجرملےگا۔ لیکن اس خرچ کو دیگر ورثاء کے حصے سے منہا نہیں کیا جا سکتا۔

البتہ اگر تمام ورثاء باہمی رضامندی سے ان دونوں اخراجات (یعنی بہنوں کی شادی پر ایک بھائی کا کیا ہوا خرچ، اور والد مرحوم کی بیماری پر چھوٹے بھائی کا کیا ہوا خرچ) کو جائیداد میں سے منہا کرنے پر راضی ہوں، تو ایسی صورت میں ان اخراجات کو والد مرحوم کی جائیداد سے منہا کرنا جائز ہوگا۔

2:مذکورہ لڑکی(جس کی عمر16سال ہے)کی کفالت اس کےوالدکےذمہ ہے۔

3:سب سےپہلےمیت کےحقوق متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کاخرچہ نکالنےکےبعداگرمیت پرکوئی قرضہ ہوتواس کوباقی ترکہ سےنکالنےکےبعد،اوراگرمیت نےکوئی جائزوصیت کی ہوتواس کوثلث مال سےنافذ کرنےکےبعدمیت کے کل منقولہ وغیرمنقولہ جائیدادکوسات حصوں میں تقسیم کرکے2،2حصے،ہرایک بیٹےکو،اور1،1 حصہ ہرایک بیٹی کوملےگا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:7

بیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
22111

اورفیصدکےاعتبارسےہرایک بیٹےکو28.571فیصد،اورہرایک بیٹی کو14.285فیصدملےگا۔

مشکا ۃ المصابیح میں ہے:

"وعن سلمان بن عامر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الصدقة على المسكين صدقة وهي على ذي الرحم ثنتان: صدقة وصلة ". رواه أحمد والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي."

(کتاب الآداب،باب افضل الصدقۃ،ج:1ص:604،ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ:" حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:کسی مسکین کو صدقہ دینا ایک صدقہ ہے (یعنی اس کو دینے میں صرف صدقہ ہی کا ثواب ملتا ہے)مگر اپنے اقرباء میں سے کسی کو صدقہ دینا دوہرے ثواب کا باعث ہے،ایک ثواب تو صدقہ کا اور دوسرا ثواب صلہ رحمی(رشتہ داروں سے حسن سلوک )کا ہوتا ہے۔"

(مظاہر حق،ج:3،ص:271،ط:دار الاشاعت)

تنقيح الفتاوى الحامديةمیں ہے : 

"المتبرع لايرجع بما تبرع به على غيره، كما لو قضى دين غيره بغير أمره."

(کتاب المداینات،ج:2،ص:391،ط: قدیمی)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ونفقة الإناث واجبة مطلقاً على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة."

( الفصل الرابع في نفقة الأولاد،ج:1ص:563 ط: رشیدیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610101637

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں