میں اپنے بچوں کی کفالت کے حوالے سےوصیت لکھنا چاہ رہا ہوں، معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا میں وصیت میں اپنے بچوں کی کفالت اپنے سالے کے نام لکھ سکتا ہوں ؟
کیوں کہ بچوں کی والدہ اور نانی دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں،اور دادی بہت ضعیف ہیں ۔ اور سالے سے میرا بھائیوں جیسا تعلق ہے ۔
میرے الحمدللہ 6 بچے ہیں، 3 بیٹے تین بیٹیاں؛ میرا سب سے بڑا بیٹا 15 سال کا ہے۔ جبکہ بڑی بیٹی 17 سال کی ہے، ایک بیٹا 12 سال کا ہے، جبکہ دو بیٹیاں 4 اور 8 سال کی ہیں، اور سب سے چھوٹا بیٹا 10 ماہ کا ہے۔ سب بچے میرے پاس ہی ہیں، اور ان کی تمام ذمہ داریاں میں ہی اٹھا رہا ہوں۔
وضاحت: میں سرکاری ملازم ہوں، اور بیمار رہتا ہوں، جس کی وجہ سے میں یہ چاہتا ہوں کہ اگر میرا انتقال ہوجائے، تو میرے بعد میرا برادر نسبتی میرے بچوں کو کفیل ہو، کیوں کہ اس کی اہلیہ میرے والد کی پھوپھی زاد اور میری والدہ کی خالہ زاد بہن ہیں۔
اس حوالے سے میں وصیت لکھنا چاہتا ہوں، کیا میں اپنے برادر نسبتی کو اپنے بچوں کا وصی بنا سکتا ہوں؟
صورت مسئولہ میں سائل اپنی موت کے بعد اپنے بچوں کے لیے اگر اپنے برادر نسبتی کو وصی مقرر کرنا چاہتا ہے، تو شرعا اس کی گنجائش ہوگی، وصیت کے مطابق سائل کی موت کے بعد اس کی نابالغ و نا سمجھ اولاد کے اموال کی حفاظت اور بچوں پر خرچ کرنے کا ذمہ دار وصی ( مذکورہ برادر نسبتی) ہوگا۔
رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:
"(ووليه أبوه ثم وصيه) بعد موته ثم وصي وصيه كما في القهستاني عن العمادية (ثم) بعدهم (جده) الصحيح وإن علا (ثم وصيه) ثم وصي وصيه قهستاني زاد القهستاني والزيلعي ثم الوالي بالطريق الأولى (ثم القاضي أو وصيه) أيهما تصرف يصح
(قوله ثم وصي وصيه) قال الرملي في حاشية البحر أي وإن بعد كما في جامع الفصولين."
(كتاب المأذون، مبحث في تصرف الصبي ومن له الولاية عليه وترتيبها، ٦ / ١٧٤، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602101567
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن