بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا والدین سے ملنے کا بیوی کو حق ہے؟ / بیوی کے ساتھ حسنِ معاشرت


سوال

1۔ عورت کا اپنے والدین کے گھر جانے کا شرعی حق کیا ہے؟ جب کہ فون پہ بھی بات ہوتی ہو؟اور اگر بات نہ ہو تب بھی؟

2۔ اگر میاں بیوی کے درمیان شوہر کے دوستوں کی وجہ سے اکثر جھگڑا رہتا ہو، ایسے میں بیوی یہ مطالبہ کرے کہ دوستوں سے ملنا ملانا، کھانا پینا 15 دن میں کرلیا کریں تو بیوی اس طرح کا مطالبہ کرنے کا حق رکھتی ہے یا نہیں؟ اگر رکھتی ہے تو شوہر نہ مانے تو گناہ گار ہوگا؟

3۔ بیوی کا حق ہے کہ شوہر جو کھائے وہی بیوی کو کھلائے، اب جو آئے دن دوستوں کے ساتھ باہر کھانا پینا کرے تو بیوی اس کھانے پینے کا مطالبہ کرسکتی ہے؟ 

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں فون پر بات ہوتی ہو یا نہ ہوتی ہو، بہر صورت  ہفتہ میں ایک دن بیوی اپنے والدین سے  ملنے جانے کا شرعًا حق رکھتی ہے، جب کہ والدین اسی شہر میں رہتے ہوں یا مسافتِ سفر سے کم فاصلے پر رہتے ہوں،  والدین سے ملاقات کے لیے جانے سے روکنے کا حق شوہر کو  نہیں ہے، اسی طرح بیوی کے والدین ہفتے میں ایک مرتبہ اپنی بیٹی سے  ملنے آنا چاہیں تو آ سکتے ہیں، شوہر کو روکنے کا حق حاصل نہیں، ہاں البتہ اگر ساس سسر  داماد کے گھر رہنا  چاہتے ہوں تو اس صورت داماد سے اجازت لینا ضروری ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وَإِذَا أَرَادَ الزَّوْجُ أَنْ يَمْنَعَ أَبَاهَا، أَوْ أُمَّهَا، أَوْ أَحَدًا مِنْ أَهْلِهَا مِنْ الدُّخُولِ عَلَيْهِ فِي مَنْزِلِهِ اخْتَلَفُوا فِي ذَلِكَ قَالَ بَعْضُهُمْ: لَايَمْنَعُ مِنْ الْأَبَوَيْنِ مِنْ الدُّخُولِ عَلَيْهَا لِلزِّيَارَةِ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ، وَإِنَّمَا يَمْنَعُهُمْ مِنْ الْكَيْنُونَةِ عِنْدَهَا، وَبِهِ أَخَذَ مَشَايِخُنَا - رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى -، وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ. وَقِيلَ: لَايَمْنَعُهَا مِنْ الْخُرُوجِ إلَى الْوَالِدَيْنِ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ مَرَّةً، وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى، كَذَا فِي غَايَةِ السُّرُوجِيِّ. وَهَلْ يَمْنَعُ غَيْرَ الْأَبَوَيْنِ عَنْ الزِّيَارَةِ فِي كُلِّ شَهْرٍ؟ وَ قَالَ مَشَايِخُ بَلْخٍ: فِي كُلِّ سَنَةٍ، وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى، وَكَذَا لَوْ أَرَادَتْ الْمَرْأَةُ أَنْ تَخْرُجَ لِزِيَارَةِ الْمَحَارِمِ كَالْخَالَةِ وَالْعَمَّةِ وَالْأُخْتِ فَهُوَ عَلَى هَذِهِ الْأَقَاوِيلِ، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ. وَلَيْسَ لِلزَّوْجِ أَنْ يَمْنَعَ وَالِدَيْهَا وَوَلَدَهَا مِنْ غَيْرِهِ وَأَهْلَهَا مِنْ النَّظَرِ إلَيْهَا وَكَلَامَهَا فِي أَيِّ وَقْتٍ اخْتَارُوا، هَكَذَا فِي الْهِدَايَةِ."

(الْبَابُ السَّابِعُ عَشَرَ فِي النَّفَقَاتِ، الْفَصْلُ الثَّانِي فِي السُّكْنَى، ۱ / ۵۵۶ - ۵۵۷، ط: دار الفكر)

2۔ شوہر اگر رات کے اوقات میں آئے روز دوستوں کے ساتھ وقت گزارتا ہو تو اس کا طرز عمل درست نہیں ہے، لہذا اسے اپنا طرزِ عمل تبدیل کرنا چاہیے،  اللہ رب العزت نے مردوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ و  حسنِ سلوک کا پابند کیا ہے، یہی وجہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو بہترین قرار دیا ہے، جو اپنے گھروالوں کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھتا ہو، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ اپنی تمام ازواجِ مطہرات کے ساتھ رات کو کھانا تناول فرماتے تھے، اسی طرح رات سونے سے قبل اپنی اہلیہ سے گفتگو فرماتے، پس مذکورہ شخص کو چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے، اپنی اہلیہ اور گھر والوں کے   ساتھ  رات کا وقت گزارے، اور دوستوں کی محفلوں میں شرکت کو اعتدال میں رکھے، اور ان سے جو ضروری ملاقات کرنی ہو دن کے اوقات میں کرے۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وقوله :{وعاشروهن بالمعروف}أي : طيبوا أقوالكم له، وحسنوا أفعالكم وهيئاتكم بحسب قدرتكم، كما تحب ذلك منها، فافعل أنت بها مثله، كما قال تعالى:{ولهن مثل الذي عليهن بالمعروف}[البقرة : 228] وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي" وكان من أخلاقه صلى الله عليه وسلم أنه جميل العشرة دائم البشر، يداعب أهله، ويتلطف بهم، ويوسعهم نفقته، ويضاحك نساءه، حتى أنه كان يسابق عائشة أم المؤمنين يتودد إليها بذلك. قالت : سابقني رسول الله صلى الله عليه وسلم فسبقته، وذلك قبل أن أحمل اللحم، ثم سابقته بعد ما حملت اللحم فسبقني، فقال: "هذه بتلك" ويجتمع نساؤه كل ليلة في بيت التي يبيت عندها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيأكل معهنّ العشاء في بعض الأحيان، ثم تنصرف كل واحدة إلى منزلها. وكان ينام مع المرأة من نسائه في شعار واحد، يضع عن كتفيه الرداء وينام بالإزار، وكان إذا صلى العشاء يدخل منزله يسمر مع أهله قليلًا قبل أن ينام، يؤانسهم بذلك صلى الله عليه وسلم وقد قال الله تعالى:{لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة}[ الأحزاب : 21 ] ."

( ابن کثیر، سورة النساء: 19)

3۔ شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیوی کو  اپنی حیثیت کے مطابق کھانا  مہیا کرے،  اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ جیسا کھانا خود کھائے، ویسا ہی کھانا بیوی کو بھی مہیا کرے، تاہم بیوی کو شوہر کی حیثیت سے زیادہ کے مطالبہ کا حق نہیں۔نیز گھر سے باہر لے جاکر کھانا کھلانے کا مطالبہ بھی نہیں کرسکتی، کیوں کہ عورت کے لیے گھر سے باہر نکلنا شرعی ضرورت کے ساتھ مقید ہے، نیز ایسے مقامات پر پردے کا اہتمام بھی بہت مشکل ہے، دیگر خرابیاں اس کے علاوہ ہیں، ہاں اگر مذکورہ خاتون کا شوہر اپنے دوستوں کو اپنی جیب سے کھانا کھلاتا ہو تو اخلاقًا اسے چاہیے کہ بیوی کو گھر پر اس معیار کا کھانا مہیا کرے، خواہ گھر پر پکاکر یا باہر سے تیار شدہ لاکر دے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وَالنَّفَقَةُ الْوَاجِبَةُ الْمَأْكُولُ وَالْمَلْبُوسُ وَالسُّكْنَى، أَمَّا الْمَأْكُولُ فَالدَّقِيقُ وَالْمَاءُ وَالْمِلْحُ وَالْحَطَبُ وَالدُّهْنُ، كَذَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة. وَكَمَا يُفْرَضُ لَهَا قَدْرُ الْكِفَايَةِ مِنْ الطَّعَامِ كَذَلِكَ مِنْ الْآدَامِ، كَذَا فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ. وَيَجِبُ لَهَا مَا تُنَظِّفُ بِهِ وَتُزِيلُ الْوَسَخَ كَالْمُشْطِ وَالدُّهْنِ، وَمَا تَغْسِلُ بِهِ مِنْ السِّدْرِ وَالْخِطْمِيُّ، وَمَا تُزِيلُ بِهِ الدَّرَنَ كَالْأُشْنَانِ وَالصَّابُونِ عَلَى عَادَةِ أَهْلِ الْبَلَدِ، وَأَمَّا مَا يُقْصَدُ بِهِ التَّلَذُّذُ وَالِاسْتِمْتَاعُ مِثْلُ الْخِضَابِ وَالْكُحْلِ فَلَا يَلْزَمُهُ بَلْ هُوَ عَلَى اخْتِيَارِهِ إنْ شَاءَ هَيَّأَهُ لَهَا، وَإِنْ شَاءَ تَرَكَهُ، فَإِذَا هَيَّأَهُ لَهَا فَعَلَيْهَا اسْتِعْمَالُهُ، وَأَمَّا الطِّيبُ فَلَايَجِبُ عَلَيْهِ مِنْهُ إلَّا مَا يَقْطَعُ بِهِ السَّهْوَكَةَ لَا غَيْرُ وَيَجِبُ عَلَيْهِ مَا يَقْطَعُ بِهِ الصُّنَانَ، وَلَايَجِبُ الدَّوَاءُ لِلْمَرَضِ، وَلَا أُجْرَةُ الطَّبِيبِ، وَلَا الْفَصْدُ، وَلَا الْحِجَامَةُ، كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ. وَعَلَيْهِ مِنْ الْمَاءِ مَا تَغْسِلُ بِهِ ثِيَابَهَا وَبَدَنَهَا مِنْ الْوَسَخِ، كَذَا فِي الْجَوْهَرَةِ النَّيِّرَةِ. وَفِي فَتَاوَى أَبِي اللَّيْثِ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -: ثَمَنُ مَاءِ الِاغْتِسَالِ عَلَى الزَّوْجِ، وَكَذَا مَاءُ وُضُوئِهَا عَلَيْهِ غَنِيَّةً كَانَتْ أَوْ فَقِيرَةً، وَفِي الصَّيْرَفِيَّةِ: وَعَلَيْهِ فَتْوَى مَشَايِخِ بَلْخٍ وَفَتْوَى الصَّدْرِ الشَّهِيدِ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - وَهُوَ اخْتِيَارُ قَاضِي خَانْ كَذَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة فِي بَابِ الْغُسْلِ وَأُجْرَةُ الْقَابِلَةِ عَلَيْهَا حِينَ اسْتَأْجَرَتْهَا، وَلَوْ اسْتَأْجَرَهَا الزَّوْجُ، فَعَلَيْهِ، وَإِنْ حَضَرَ بِلَا إجَارَةٍ فَلِقَائِلٍ أَنْ يَقُولَ: عَلَى الزَّوْجِ؛ لِأَنَّهُ مُؤْنَةُ الْوَطْءِ وَجُوِّزَ أَنْ يُقَالَ: عَلَيْهَا كَأُجْرَةِ الطَّبِيبِ كَذَا فِي الْوَجِيزِ لِلْكَرْدَرِيِّ."

(الْبَابُ السَّابِعُ عَشَرَ فِي النَّفَقَاتِ، الْفَصْلُ الْأَوَّلُ فِي نَفَقَةِ الزَّوْجَةِ، ۱ / ۵۴۹، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201301

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں