بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیاوکالت والا قبضہ خریداری کے قبضہ کے لیے کافی ہے؟


سوال

نور محمد کا کام  مال خرید کر سپلائی کرناہے، مگر اس کے پاس پیسے نہیں ہیں،  اب کریم اللہ کے پاس پیسے ہیں، کریم اللہ کہتا ہے کہ میں آپ کو ڈھائی لاکھ روپے دوں گا ،اس میں آپ میرے لیے وکیل کے طور پر 500 بنڈل پاپڑ مارکیٹ سے خریدوگے،  اور پھر ہر بنڈل پر 10 روپیہ فائدہ رکھ کر ،آپ (وکیل) خود اپنے لیے خریدو گے، کیا یہ درست ہے؟اور  کیا موکل کی طرف سے وکیل کا قبضہ قبضۂِ تام ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کریم اللہ پر لازم ہےکہ وہ خود ان پاپڑ پر قبضہ کرےیا کسی اور کو وکیل بنائے جو اِن پاپڑ وغیرہ پر قبضہ کرے،اور پھر یہ پاپڑ وغیرہ نور محمد پر دس فیصد نفع شامل کرکے فروخت کردےتو جائز ہوگا، نورمحمد کی خریداری کے لیے اس کا سابقہ وکالت والا قبضہ ناکافی ہے،بلکہ کریم اللہ یا نور محمد کے علاوہ کوئی اور وکیل اس کو قبضہ کرے، پھر نور محمد کو فروخت کرے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الأصل أن البيع إذا وقع والمبيع مقبوض مضمون على المشتري بقيمته ينوب قبضه عن قبض الشراء لأنه من جنس القبض المستحق بالشراء لأن قبض الشراء مضمون بنفسه كذا في السرخسي إذا تجانس القبضان بأن كانا قبض أمانة أو ضمان تناوبا وإن اختلفا ناب المضمون عن غيره لا غير كذا في الوجيز للكردري. . .ولو كان في يده عارية أو وديعة أو رهن لم يصر قابضا بمجرد العقد إلا أن يكون بحضرته أو يرجع إليه فيتمكن من القبض كذا في الحاوي."

(كتاب البيوع،الباب الرابع في حبس المبيع بالثمن وقبضه، الفصل الرابع فيما ينوب قبضه عن قبض الشراء وما لا ينوب،   ٢٣/٣، ط:رشيدية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"أما إذا كان في يد المشتري فهل يصير قابضا للبيع بنفس العقد أم يحتاج فيه إلى تجديد القبض فالأصل فيه أن الموجود وقت العقد إن كان مثل المستحق بالعقد ‌ينوب منابه، وإن لم يكن مثله فإن كان أقوى من المستحق ناب عنه، وإن كان دونه لا ‌ينوب؛ لأنه إذا كان مثله أمكن تحقيق التناوب؛ لأن المتماثلين غيران ‌ينوب كل واحد منهما مناب صاحبه، ويسد مسده، وإن كان أقوى منه يوجد فيه المستحق، وزيادة، وإن كان دونه لا يوجد فيه إلا بعض المستحق فلا ‌ينوب عن كله، وبيان ذلك في مسائل، وجملة الكلام فيها أن يد المشتري قبل الشراء إما أن كانت يد ضمان، وإما أن كانت يد أمانة...وإذا كان أمانة فقبض الأمانة لا ‌ينوب عن ‌قبض الضمان كقبض العارية، الوديعة، وإن كانت يد المشتري يد أمانة كيد الوديعة، والعارية لا يصير قابضا إلا أن يكون بحضرته، أو يذهب إلى حيث يتمكن من قبضه بالتخلي؛ لأن يد الأمانة ليست من جنس يد الضمان فلا يتناوبان."

(كتاب البيوع، فصل في حكم البيع، ٢٤٨/٥، ط:مطبعة الجمالية بمصر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102733

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں