بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا والد پر بالغ والاد کا نفقہ لازم ہے؟


سوال

میں باہر ملک میں رہتا ہوں، آج سے کچھ ایک دو سال پہلے مجھ سے ایک غلطی ہوگئی تھی کہ  میرے بھائی نے مجھے پیسے دیے تھے،  وہ پیسے میں نے اپنے بھائی سے پوچھے بغیر کاروبار میں خرچ کر دیے تھے،میں نے   ان پیسوں سے کرائے پر دکان کھولی تھی اور  اس میں نقصان ہو گیا،اس کے بعد میرا بھائی مجھ پر غصہ ہوا، لیکن میرے گھر والوں نے  صلح کروالی ، اس کے بعد اور بھی مسئلے ہوئے،والد صاحب نے آخری مرتبہ پیسے بھیج کر  بولا کہ بس میں آخری بار بھیج رہا ہوں،  ہم چھ بہن بھائی ہیں اور میرے والد صاحب کو اللہ تبارک و تعالی نے بہت کچھ عطا کیا ہے ،میرے دو بھائی ہیں،ابو نے ان کو دکانیں بھی دیں ہوئی ہیں، ایک بھائی کو اپنا گھر دیا ہوا ہے اور میں اپنے کاروبار کو آگے بڑھا رہا ہوں اور اب میں نے اتنے عرصے میں بہت ساری چیزیں سیکھ لیں، اب میرے گھر والے یہ سمجھتے ہیں کہ میرے پاس صلاحیت ہی نہیں  کاروبار کرنے کی،  میرے گھر والے یہ سمجھتے ہیں کہ اس کو پاکستان آجانا چاہیے ، اچھا میں نے کچھ ایسی چیزیں کاروبار سے متعلق سیکھی ہیں اور ان شاء اللہ مجھے پورا یقین ہے کہ آئندہ ایک سال کے اندر اندر میں اپنے کاروبار کو آگے بڑھا لوں گا،یہاں اخراجات بہت زیادہ ہیں، اخراجات زیادہ تو نہیں ہیں، اگر آپ کی آمدنی زیادہ ہو تو اخراجات زیادہ نہیں لگتے، اب  مسئلہ یہ ہے کہ میراایک مہینے کا  خرچہ   کوئی پاکستانی ایک لاکھ روپے سے اوپر بنتا ہے اور میں اگر ابو سے اتنے پیسے مانگوں ہر مہینے تو ابو دے نہیں سکیں گے، میں نے ان کو کچھ ایسی چیزیں بتائی ہیں کاروبار سے متعلق کہ وہ مجھے کم سے کم ہر مہینے آدھے پیسے آرام سے دے سکتے ہیں، میرا جو ایک بنیادی خرچہ ہے جو میں پاکستان میں بھی اگر آجاؤ اس وقت بھی خرچ ہونا ہے، میرے والد صاحب نے میرے سارے گھر والوں کے سامنے  مجھ سے کہہ دیا ہے کہ آپ پاکستان آجاؤں آپ کو ہر چیز دیں گے، تو آپ یہ بتائیں کہ کیا وہ یہ نہیں کر سکتے کہ ابھی سے وہ دکان کرائے پر دے دیں اور وہ گھر جو وہ علیحدہ سے دیں گے وہ ابھی سے کرائے پر دے دیں ،وہ جو کرایا ہے یہاں بھیجتے رہیں،یا اتنا کر دیں کہ جو خرچہ اپنی ایک اولاد کو دے رہے ہیں وہ میرے اوپر لگا سکے اور پہلے جو خرچ ہوتے تھے میرے اوپر وہی دے سکے، میرے کھانے کے لیے بھیج سکیں، اس وقت میرے اکاؤنٹ میں پاکستانی 30 ہزار روپے بھی نہیں ہیں، تو اب آپ یہ بتائیں کہ اس اولاد کو جس کے پاس کھانے کو نہ ہو اور ایک اولاد جس کے پاس ہر چیز ہے اور وہ اولاد جو مصیبت میں ہے اس کو دینا زیادہ افضل ہے ان حالات میں یا اسی کو دینا زیادہ افضل ہے کہ جو امیر ہوں میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں؟ کہ ان حالات میں آپ کو اس اولاد کو دینا چاہیے جس کے پاس کھانے کو نہ ہو یا ایسی اولاد کو دینا چاہیے جو عیش میں رہ رہی ہو؟ میرے گھر والے یہ سمجھتے ہیں کہ میں ہمیشہ جھوٹ بولتا ہو ں اور میں نقصان اٹھاتا رہتا ہوں۔

1۔ کیا ان حالات میں میرے والد صاحب کو میری مدد کرنی چاہیے یا اپنی ان اولاد کی کے جو پہلے سے خوش حالی میں ہے؟ 

2،کیا ابو کا فرض نہیں بنتا کہ اگر میں مصیبت میں ہوں اور ملک سے باہر ہوں کہ میری ایسے مدد کریں کہ جیسے اپنی ان اولاد کی کر رہے ہیں کہ جو پاکستان میں موجود ہیں ؟

3۔ جو میرے بھائی کے پیسے خرچ ہوئے تھے، اگر بالفرض وہ پیسے ابو نے میرے بھائی کو دے دیے ہیں اور اس کے علاوہ ابو نے مجھے اور پیسے بھی بھیجے مجھے یہ کہہ کر کے میں آخری بار بھیج رہا ہوں اور ان حالات میں کے میرے پاس جب کھانے کو نہیں ہے تو کیا ان حالات میں امی ابو یا میری فیملی کو میری مدد کرنی چاہیے یا نہیں ؟

4۔ میری باتوں کا یقین میرے گھر والوں کو کیسے آ جائے کہ میں جو کہہ رہا ہوں وہ سچ کہہ رہا ہوں؟ اور یہ  کہ میرے گھر والوں کو اس بات کا یقین آجائے کہ میں اپنے کاروبار کو آگے بڑھا سکتا ہوں ؟

جواب

1-3۔واضح رہے کہ لڑکا  جب تک نابالغ ہو یا بالغ ہو، لیکن کسی عذر شرعی کی وجہ سے کمانے کے قابل نہ ہو،  اس وقت تک ان کا نفقہ(خرچہ) والد پر ہے،کمائی کے قابل ہو جانے کے بعدوالد  پر لڑکے کا نان نفقہ لازم نہیں ، لیکن والد اپنی خوشی سے اپنے مال سے اگر  اولاد کو کچھ دے تو شرعاً یہ معاملہ ہبہ (گفٹ) کہلاتا ہے ، اور اولاد کو ہبہ کرنے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ سب کے درمیان برابری اور انصاف کا پہلو اختیار کرے ،البتہ  کسی بیٹے یا  بیٹی کو  کسی معقول شرعی وجہ کی بنا پر  دوسروں کی بہ نسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی دین داری یا  زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے، لیکن بعض کو دینا اور بعض کو محروم رکھنا یا بلا وجہ کم زیادہ دینا یہ شرعاً سخت گناہ ہے، اس سے بچنا لازم ہے۔

صورتِ مسئولہ میں سائل کا خرچہ اس کے  والد کے ذمہ لازم نہیں ہے، البتہ اگر سائل  کے والد دیگر اولاد  کو خرچہ دے رہے ہوں تو بغیر کسی عذر شرعی کے اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) میں فرق کرنا درست نہیں، لہذا اگر سائل واقعی پریشان حال ہو کہ کچھ کھانے کو میسر نہ ہو اور  سائل کے والد  صاحبِ استطاعت بھی ہوں تو  مروۃً سائل کی مدد کرنی چاہیے، لیکن سائل کا والد اگر اسے پاکستان آنے کا کہہ رہا ہے اور وہاں وہ اس کی مدد کرنا بھی چاہ رہا ہوتو سائل کو اپنے والد کی بات مان لینی  چاہیے، جب کہ ماضی میں وہ کاروباری نقصان بھی اٹھاتا رہا ہے۔ 

4۔اپنے والدین اور گھر والوں   کا اعتماد  حاصل  کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ سائل جھوٹ، دھوکا  دہی اور فریب سے بچے، کاروبار میں محنت کرے اور اپنے کاروبار کے نتائج ان کے سامنے پیش کرے، ساتھ ساتھ دعاؤں کا خوب اہتمام کرے، اور گر کاروبار میں نفع کی امید نہ  ہو تو پاکستان واپس آجائے۔

الدر مع الرد  میں ہے:

"(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر ... (وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقاً وزمن.

(قوله: لطفله) هو الولد حين يسقط من بطن أمه إلى أن يحتلم، ويقال: جارية، طفل، وطفلة، كذا في المغرب. وقيل: أول ما يولد صبي ثم طفل ح عن النهر (قوله: يعم الأنثى والجمع) أي يطلق على الأنثى كما علمته، وعلى الجمع كما في قوله تعالى: {أو الطفل الذين لم يظهروا} [النور: 31] فهو مما يستوي فيه المفرد والجمع كالجنب والفلك والإمام - {واجعلنا للمتقين إماما} [الفرقان: 74]- ولاينافيه جمعه على أطفال أيضاً كما جمع إمام على أئمة أيضاً فافهم.... (قوله: كأنثى مطلقاً) أي ولو لم يكن بها زمانة تمنعها عن الكسب فمجرد الأنوثة عجز إلا إذا كان لها زوج فنفقتها عليه ما دامت زوجة ... (قوله: وزمن) أي من به مرض مزمن، والمراد هنا من به ما يمنعه عن الكسب كعمى وشلل، ولو قدر على اكتساب ما لايكفيه فعلى أبيه تكميل الكفاية."

(کتاب الطلاق ،باب النفقۃ،مطلب الصغير والمكتسب نفقة في كسبه لا على أبيه،612/3، ط: سعید)

مشکاۃ االمصابیح میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم".

( باب العطایا،261/1، ط: قدیمی)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى  أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف  رحمه الله تعالى  أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى."

( کتاب الھبة، الباب السادس في الهبة للصغير،391/4،ط: دار الفکر) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101080

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں