بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا الٹی (قے) آنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟


سوال

اگر الٹی وغیرہ ہو جائے تو اس سے روزہ رہتا ہے یا ٹوٹ جاتا ہے؟

جواب

اگر کسی شخص کو روزے کی حالت میں قے (اُلٹی) ہو جائے تو اس کی چند صورتیں ہو سکتی ہیں:

۱:  قے خود بخود ہوئی اور منہ بھر کر نہیں تھی، بلکہ کم تھی تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس سے روزہ فاسد نہیں ہو گا۔

۲: قے خود بخود ہوئی اور منہ بھر کر ہوئی، اس کا حکم بھی یہ ہے کہ اس سے روزہ فاسد نہیں ہو گا۔

۳: قے خود بخود نہیں ہوئی، بلکہ قصداً قے کی اور منہ بھر کر نہیں کی تو اس سے بھی روزہ فاسد نہیں ہو گا۔

۴: قے خود بخود نہیں ہوئی، بلکہ قصداً قے کی اور منہ بھر کر کی تو اس صورت میں روزہ فاسد ہو جائے گا۔

۵: قے منہ بھر کر ہوئی اور ساری قے یا اس میں سے چنے کے برابر مقدار یا اس سے زائد کو روزہ یاد ہوتے ہوئے خود جان بوجھ کر اپنے اختیار سے اندر اتار دیا تو اس سے روزہ فاسد ہو جا ئے گا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وإن ذرعه القيء وخرج) ولم يعد (لايفطر مطلقًا) ملأ أو لا (فإن عاد) بلا صنعه (و) لو (هو ملء الفم مع تذكره للصوم لايفسد) خلافًا للثاني (وإن أعاده) أو قدر حمصة منه فأكثر حدادي (أفطر إجماعًا) ولا كفارة (إن ملأ الفم وإلا لا) هو المختار (وإن استقاء) أي طلب القيء (عامدًا) أي متذكرًا لصوم (إن كان ملء الفم فسد بالإجماع)  مطلقًا (وإن أقل لا) عند الثاني وهو الصحيح، لكن ظاهر الرواية كقول محمد إنه يفسد كما في الفتح عن الكافي (فإن عاد بنفسه لم يفطر وإن أعاده ففيه روايتان) أصحهما لايفسد، محيط  (وهذا) كله (في قيء طعام أو ماء أو مرة) أو دم (فإن كان بلغمًا فغير مفسد) مطلقًا خلافًا للثاني، و استحسنه الكمال وغيره".

(كتاب الصوم، ‌‌باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، ٢/ ٤١٤، ط: سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"فالحاصل أن صور المسائل اثنا عشر ... وأن صومه لا يفسد على الأصح في الجميع إلا في مسألتين في الإعادة ‌بشرط ملء الفم، وفي الاستقاء ‌بشرط ملء."

(کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، ٢/ ٤٧٩، ط: دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو ذرعه ‌القيء لم يفطره سواء كان أقل من ملء الفم، أو كان ملء الفم، لقول النبي - صلى الله عليه وسلم -: «ثلاث لا يفطرن الصائم: ‌القيء، والحجامة، والاحتلام» وقوله: «من قاء فلا قضاء عليه» ولأن ذرع ‌القيء مما لا يمكن التحرز عنه بل يأتيه على وجه لا يمكنه دفعه فأشبه الناسي ولأن الأصل أن لا يفسد الصوم بالقيء سواء ذرعه، أو تقيأ لأن فساد الصوم متعلق بالدخول شرعا، قال النبي - صلى الله عليه وسلم -: «الفطر مما يدخل، والوضوء مما يخرج» علق كل جنس الفطر بكل ما يدخل ... ولأنه لا صنع له في الذرع وهو سبق ‌القيء بل يحصل بغير قصده واختياره، والإنسان لا يؤاخذ بما لا صنع له فيه، فلهذا لا يؤاخذ الناسي بفساد الصوم، فكذا هذا لأن هذا في معناه بل أولى لأنه لا صنع له فيه أصلا بخلاف الناسي على ما مر."

(كتاب الصوم، فصل أركان الصيام، ٢/ ٩٢، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509100141

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں