دینی علوم حاصل کرنے والے طلبہ کو مہمانانِ رسول سے تعبیر کرنا شرعاً کیسا ہے اور کیا دلائل ہیں؟
صورتِ مسئولہ اس حوالے سے کوئی صریح حدیث یا فقہی جزئیہ نہیں مل سکا، تاہم درج ذیل حدیث سے اشارۃً یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے:
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"إنّ الناس لکم تبع، و إنّ رجالًا یأتونکم من أقطار الأرض یتفقهون في الدین، فإذا أتوکم فاستوصوا بهم خیرًا." (رواہ الترمذي)
یعنی رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: بے شک سب لوگ تمہارے تابع ہیں، اور تمہارے پاس دنیا کے اطراف سے بہت لوگ دین کا علم حاصل کرنے آئیں گے، چناں چہ جب وہ دین کا علم (میری احادیث وغیرہ) حاصل کرنے آئیں تو میری آپ لوگوں کو وصیت ہے کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔
یعنی آپ ﷺ نے دینی علوم کے طلبہ کی آمد کی بشارت بھی دی اور ان کے اکرام کا بھی حکم دیا، اس مناسبت سے بعض علماءِ کرام انہیں مہمانِ رسول ﷺ کہہ دیتے ہیں، نیز علوم دینیہ کے طلبہ کی نسبت چوں کہ اسلام کے پہلے مدرسہ صفہ سے ہے، جس کے طلبہ درحقیقت مہمانانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، اس مناسبت سے مجازاً و تفاؤلاً انہیں مہمانانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہا جا سکتا ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144110200351
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن