بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا علماءِ کرام اور مفتیانِ کرام کو شیطانی وساوس آتے ہیں؟


سوال

کیا علماءِ کرام اور مفتیانِ کرام کو شیطانی وساوس آتے ہیں؟ جب کہ وہ شریعت کو صحیح طریقے سے فالو کرتے ہوں اور اللہ کی مانتے ہوں۔

جواب

واضح رہے کہ شیطانی وساوس علماءِ کرام اور مفتیانِ کرام سمیت ہر انسان کو آتے ہیں،  بلکہ بعض علماء  نے  کہا ہے کہ جس طرح  چور اُس گھر میں جاتا ہے جہاں کچھ مال ومتاع ہوتا ہے، اسی طرح جس دل میں ایمان ہوتا ہے شیطان وہاں آکر وساوس ڈالتا ہے، تو غرض یہ کہ شیطان وساوس تو ڈالتا ہے، لیکن اس پر عمل نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اسے وساوس کی حدتک ہی رکھ کر بُرا سمجھنا چاہیے اور  اُسے برا سمجھنا  ایمان کی علامت ہے، چناں چہ  حضرت ابوہریرہ   رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے کچھ لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ ہم اپنے دلوں میں کچھ خیالات ایسے پاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو بیان نہیں کر سکتا، آپ ﷺ نے فرمایا کیا واقعی تم اسی طرح پاتے ہو؟ (یعنی ان خیالات کو برا سمجھتے ہو؟) صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا جی ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تو صریح ایمان ہے۔

ملاعلی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : صحابہ کے اس جملہ  "ہم اپنے دلوں میں کچھ خیالات ایسے پاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو بیان نہیں کر سکتا" کا مطلب یہ ہے کہ ”ہم اپنے دلوں میں بری چیزیں پاتے ہیں، مثلاً:  اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ اور وہ کیسا ہے؟ اور کس چیز سے بنا ہے؟ اور اس طرح کی اور چیزیں کہ جن کا بیان کرنا بھی مشکل ہے، اس لیے کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ قبیح باتیں ہیں اور ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے کہ ہم اس پر اعتقاد رکھیں، بلکہ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قدیم ہے، ازل سے ہے،ہر چیز کا خالق ہے، مخلوق نہیں ہے، تو ایسے خیالات جو ہمارے دل میں آتے ہیں ان کا کیا حکم ہے؟ تو آپ ﷺ نے یہ جواب دیا کہ یہ تو صریح ایمان ہے؛ اس لیے کہ تم اس وساوس کو دل میں پانے کے بعد جھڑک دیتے ہو، اور اس کو برا سمجھتے ہو،تو یہ تمہارے ایمان کی علامت ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: ‌جاء ‌ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى النبي صلى الله عليه وسلم فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به. قال: «أو قد وجدتموه» قالوا: نعم. قال: «ذاك صريح الإيمان» . رواه مسلم."

(‌‌كتاب الإيمان، ‌‌باب الوسوسة، ‌‌الفصل الأول، ج: 1، ص: 26، رقم: 64، ط: المكتب الإسلامي)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"( «في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به» ) أي: نجد في قلوبنا أشياء قبيحة نحو: من خلق الله؟ وكيف هو؟ ومن أي شيء؟ وما أشبه ذلك مما يتعاظم النطق به لعلمنا أنه قبيح لا يليق شيء منها أن نعتقده، ونعلم أنه قديم، خالق الأشياء، غير مخلوق، فما حكم جريان ذلك في خواطرنا؟... (صريح الإيمان) أي: خالصه يعني أنه أمارته الدالة صريحا على رسوخه في قلوبكم، وخلوصها من التشبيه، والتعطيل؛ لأن الكافر يصر على ما في قلبه من تشبيه الله سبحانه بالمخلوقات، ويعتقده حسنا، ومن استقبحها، وتعاظمها لعلمه بقبحها، وأنها لا تليق به تعالى كان مؤمنا حقا، وموقنا صدقا فلا تزعزعه شبهة، وإن قويت، ولا تحل عقد قلبه ريبة، وإن موهت، ولأن من كان إيمانه مشوبا يقبل الوسوسة، ولا يردها. وقيل المعنى أن الوسوسة أمارة الإيمان؛ لأن اللص لا يدخل البيت الخالي."

(كتاب الإيمان، باب في الوسوسة، ج: 1، ص: 137،136، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504101688

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں