بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا تشہد کا کوئی جملہ مکرر پڑھنے سے سجدہ سہو واجب ہو جاتا ہے؟


سوال

کیا تشہد کا کوئی جملہ مکرر پڑھنے سے سجدہ سہو واجب ہو جاتا ہے؟

جواب

اگر مکرر کیا  ہوا جملہ ایک رکن(    تین بار سبحان ربی الأعلیٰ=42 حروف ِ مفردہ  )کی مقدارکے برابر ہو،تو چاررکعتی نماز کے   قعدہ اولی میں تو  اتنی مقدار پڑھنے سے سجدہ سہو واجب ہوگا ،اور اگر دو رکعتی نماز یا چار رکعتی نماز کے قعدہ اخیرہ میں ایسا ہو تو ا  اتنی مقدار  پڑھنے سے بھی سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا۔

اور اگر مکرر کیا جانے والا جملہ ایک رکن کی مقدار سے کم ہو ،تو کسی بھی صورت میں سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا،خواہ دو رکعتی نماز کا قعدہ ہو یا چار رکعتی نماز کا قعدہ،خواہ قعدہ اولی یا قعدہ اخیرہ۔

یہ ساری تفصیل اس صورت میں ہے کہ جملہ مکرر پڑھنے والا امام یا منفرد ہو،اور اگرمقتدی نے تشہد کا کوئی جملہ مکرر پڑھا توکسی بھی صورت میں سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا،خواہ ایک رکن کی مقدار پڑھا ہو یا اس سے کم ،خواہ قعدہ اولی ہو یا قعدہ اخیرہ ،خواہ بھولے سے ہو یا جان کر اس سے سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا نہ خود اس پر ،نہ امام پر اور نہ دیگر مقتدیوں پر، تاہم جان کر پڑھنا درست نہیں ہے۔

احسن الفتاوی میں ہے:

قعدہ ِ اخیرہ میں  تشہد   یادرود کے تکرار سے  سجدہِ سہو نہیں؟

سوال:اگر کسی نے آخری قعدہ میں تشہد یا درود شریف کل یا بعض،عمدا ً یا سہواًدو بار پڑھ لیا تو اس پر سجدہ ِ سہو واجب ہوگا یا نہیں ؟بینوا تؤجروا

الجواب باسم ملھم الصواب :سجدہِ سہو واجب نہیں ؛اس لیے کہ یہ دعا وثناء کا موقع  ہے،خواہ اس میں کتنا ہی طول ہو،قال ابن نجيم- رحمه الله تعالىٰ-:‌"ولو ‌كرر ‌التشهد في القعدة الأخيرة فلا سهو عليه"(البحرالرائق،97/2)

فقط والله تعالى أعلم                               2 /محرم  /86ھ

(کیا)قعدہِ اولی ٰ میں تکرارِتشہد سے سجدہِ سہو واجب ہے؟

سوال:اگر قعدہِ اولی میں پورا تشہد یاکچھ حصہ دوبارہ پڑھ لیا ،تو اس کا کیا حکم ہے،سجدہِ سہوواجب ہے یا نہیں؟بینوا تؤجروا

الجواب باسم ملھم الصواب :قعدہ اولی میں تکرارِ تشہد سے فرض قیام الی الثالثہ میں تاخیر لازم آتی ہے،اس لیےبصورتِ عمد نماز واجب الاعادہ اور بصورت ِ سہو سجدہِ سہو لازم ہے،اگر تاخیر بقدر رکن ہو یعنی بقدر تین بار سبحان ربی الأعلیٰ=42 حروف ِ مفردہ ہو،اس سے کم تکرار پر سجدہ سہو نہیں،قال ابن نجيم- رحمه الله تعالىٰ-:‌"لو كرر التشهد في القعدة الأولى فعليه السهو لتأخير القيام"(البحرالرائق،97/2)

فقط والله تعالى أعلم      2 /محرم  /86ھ

(کتاب الصلوۃ، باب سجود السہو،ج:4، ص:28 /29، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله وكذا ترك تكريرها إلخ) فلو قرأها في ركعة من الأوليين مرتين وجب سجود السهو لتأخير الواجب وهو السورة كما في الذخيرة وغيرها، وكذا لو قرأ أكثرها ثم أعادها كما في الظهيرية".

(كتاب الصلاة،باب صفة الصلاة،فرائض الصلاة،واجبات الصلاة،ج:1،ص:460،ط: سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"‌وقراءة ‌أكثر الفاتحة ثم إعادتها كقراءتها مرتين كما في الظهيرية".

(كتاب الصلاة،باب سجود السهو،ج:2،ص:102،ط: دارالكتاب الإسلامي)

وفي الفتاوى التتارخانية:

"وفي الخلاصة الخانية:في رواية فتاوى الحجة:ولو تشهد ثلاثا أو أربعا،ثم سلم يجب السهو؛لأنه صار اللبث والمكث طويلا ولو مكث ساهيا طويلا يجب السهو".

(كتاب الصلاة، الفصل السابع عشر، ج:1، ص:522، ط: دارإحياء التراث العربي)

حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"ويجب القيام إلى الركعة الثالثة من غير تراخ بعد قراءة التشهد حتى لو زاد عليه بمقدار أداء ركن ساهيا يسجد للسهو لتأخير واجب القيام للثالثة".

"وقوله ساهيا إحترز به عن العمد فإن الصلاة تكون به مكروهة تحريما".

(كتاب الصلاة،باب شروط الصلاةوأركانها،فصل في واجب الصلاة،ص:251،ط: دار الكتب العلمية)

وفيه ايضاً:

 "ولم يبينوا ‌قدر ‌الركن وعلى قياس ما تقدم ‌أن ‌يعتبر ‌الركن ‌مع ‌سنته وهو مقدر بثلاث تسبيحات".

(كتاب الصلاة،باب سجود السهو،ص:474،ط: دار الكتب العلمية)

منحۃ الخالق لابن عابدین میں ہے:

"(قوله: وقدر الكثير ما يؤدى فيه ركن) أي بسنته كما قيده في المنية قال شارحها ابن أمير حاج أي بما له من السنة أي بما هو مشروع فيه من ‌الكمال ‌السني ‌كالتسبيحات في الركوع والسجود مثلا وهو تقييد غريب ووجهه قريب ولم أقف على التقييد بكونه قصيرا أو طويلا. اهـ.أي تقييد الركن أي هل المراد منه قدر ركن طويل بسنته كالقعود الأخير أو القيام المشتمل على قراءة المسنون أو قدر ركن قصير كالركوع أو السجود بسنته أي قدر ثلاث تسبيحات وبالثاني جزم البرهان إبراهيم الحلبي في شرح المنية حيث قال وذلك مقدار ثلاث تسبيحات. اهـ.فأفاد أن المراد أقصر ركن وكأنه؛ لأنه الأحوط. والله أعلم".

(كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، ج:1، ص:287، ط: دار الكتاب الإسلامي)

امام محمد۔علیہ الرحمہ۔ کی کتاب "الاصل"  میں ہے:

"قلت: أرأيت إماما صلى بقوم وسها في صلاته ولم يسه من خلفه؟ قال: إذا وجب على الإمام سجدتا السهو وجب ذلك على من خلفه وإن لم يسه منهم أحد غيره. قلت: أرأيت إن سها من خلفه ولم يسه الإمام؟ قال: ليس عليهم ولا عليه سهو".

(كتاب الصلاة،باب السهو في الصلاة وما يقطعها،ج:1،ص:197،ط: دار ابن حزم،بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409101290

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں