بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا تراویح چھوڑنے یا آٹھ رکعت پڑھنے سے گناہ ہوگا؟


سوال

اگر کوئی شخص کسی وجہ سے نماز تراویح نہ پڑھ سکے تو کیا اس کو گناہ ہو گا یا اگر کوئی شخص آٹھ تراویح پڑھ لے اور باقی کی نہ پڑھے کیا اس کو گناہ ہو گا؟

جواب

 بیس رکعت تراویح کی نماز بالاجماع سنتِ مؤکدہ نماز ہے،اور سنت مؤکدہ کو بلا عذر چھوڑنے  کی عادت بنانےوالا گناہ گار ہوتا ہے ،اور اگر عذر کی وجہ سے سنت مؤکدہ چھوٹ جائےتو گناہ نہیں ہوتا ہے،لہذا اگرپوری  تراویح کی نمازیا بقیہ بارہ رکعتیں اگر کسی عذر(بیماری،سفر شرعی وغیرہ) کی وجہ سے رہ گئی  تو گناہ نہیں ،لیکن اگر مستقل طور پر بلاعذ ر محض  سستی یا غفلت کی وجہ سے پوری تراویح یا بقیہ بارہ رکعتوں کے چھوڑنے کو عادت بنالے تو گناہ ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(التراويح سنة) مؤكدة؛ لمواظبة الخلفاء الراشدين (للرجال والنساء) إجماعاً."

(کتاب الصلاۃ،باب الوتر والنوافل،ج:2،ص:43،ط: سعید)

مرقاةاالمفاتیح   میں ہے:

’’لكن أجمع الصحابة علی أن التراويح عشرون ركعةً."

(كتاب الصلاة، باب قيام شهر رمضان،ج:3،ص:973، ط: رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409100536

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں