بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ٹوپی اسلامی پوشاک ہے؟


سوال

جو ٹوپي  ہم سرپر پہنتے ہیں، كيا وه اسلامی پوشاك ميں سے ہے ، قرآن اور سنت سے دليل سميت جاننا مطلوب ہے۔

جواب

واضح رہے کہ لباس کے بارے میں یہ اصول ہے کہ ہر علاقے کے نیک صالح لوگ جو لباس پہنتے ہیں وہ مسنون لباس ہیں، اور جو لباس نیک صالح لوگ نہیں پہنتے بلکہ فاسق فاجر لوگ پہنتے ہیں وہ مسنون لباس نہیں ہے، مزید یہ کہ مسنون لباس کا کوئی خاص سیمپل نہیں ہے ،یہ یونیفارم کی طرح نہیں بلکہ نیک صالح لوگ جس انداز کا بھی کُرتا اور ٹوپی پہنتے ہیں سب مسنون لباس میں شامل ہیں، اس لیے تمام ٹوپیوں کا ڈیزائن ایک ہونا ضروری نہیں، باقی غیر مسلم ٹوپی اور عمامہ وغیرہ سیمپل کے طور پر پہنتے ہیں اس لیے سب کا انداز ایک ہی ہوگا؛ کیوں کہ وہ ان کا یونیفارم ہے۔

 حدیث شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پگڑی کے نیچے ٹوپی ہونے کو مسلمان اور مشرک میں فرق قراردیا، کیوں کہ مشرکیں پگڑیاں ٹوپیوں کے بغیر باندھتے تھے، جیسا  کہ حدیث شریف میں ہے:

"وعن ركانة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «فرق ما بيننا وبين المشركين العمائم على القلانس» . رواه الترمذي".

(مشکوۃ المصابیح، کتاب اللباس، الفصل الأول، رقم الحدیث:4340، ج:2، ص:1244، ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ: حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے اور مشرکین کے درمیان فرق کرنے والی چیز ٹوپیوں پر پگڑی باندھنا ہے۔

نیز رسول اللہ ﷺ سے عمامے کے بغیر بھی ٹوپی پہننا ثابت ہے۔

فيض القدير للمناوي میں ہے:

"قال ابن العربي : القلنسوة من لباس الأنبياء والصالحين والسالكين تصون الرأس وتمكن العمامة وهي من السنة".

(باب كان وهي الشمائل الشريفة، ج:2، ص:104، ط:دارالكتب العلمية)

غذاء الألباب في شرح منظومة الآداب میں ہے:

"قال الإمام المحقق في الهدي: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبس العمامة فوق القلنسوة، ويلبس القلنسوة بغير عمامة، ويلبس العمامة بغير قلنسوة، وكان إذا اعتم أرخى طرف عمامته بين كتفيه كما في حديث عمرو بن حريث".

(مطلب: صفة عمامته عليه السلام، ج:2، ص:246، ط:مؤسسۃ قرطبیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100415

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں